Jun ۲۴, ۲۰۱۷ ۱۶:۵۹ Asia/Tehran
  • ایران اور مغرب کے ایٹمی معاہدے کی کامیابی کا انحصار تعمیری تعاون پر ہے: علی اکبر صالحی

اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے روزنامہ گارڈین میں اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ ایران اور مغرب کے درمیان طے پانے والے ایٹمی معاہدے کی کامیابی کا انحصار تعمیری تعاون پر ہے نہ کہ عدم استحکام کا شکار کرنے والی ان پالیسیوں پر جن کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

چودہ جولائی سنہ دو ہزار پندرہ کو ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ایٹمی معاہدہ ہوا تھا۔اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اس معاہدے کا تحفظ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اپنے مقالے میں لکھا ہےکہ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بہت ہی مشکلات کے بعد طے پانے والے اس معاہدے کے انجام کا انحصار مغرب کے ارادے اور تعمیری تعاون  کے اصول کی پابندی کئے جانے پر ہے اور اس اصول کے بارے میں برتی جانے والی ہر طرح کی غفلت یا جان بوجھ کر اس پر توجہ نہ دیئے جانے کی صورت میں تمام فریق پہلے والی پوزیشن میں واپس آجائیں گے۔

بلاشبہ اشتراک عمل ، کوئی ون وے روڈ نہیں ہے اور نہ ہی اس کو اکیلے طے کیا جاسکتا ہے۔ ایران نے اب تک مشترکہ جامع ایکشن پلان کے تناظر میں مشترکہ اہداف کے حصول کے مقصد سے تعمیری تعاون کے لئے اہم قدم اٹھائے ہیں۔ لیکن مشترکہ جامع  ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع ہونے کے بعد کے ڈیڑھ سال کے تجربےسے ثابت ہوگیا ہےکہ امریکہ نے ایران کی تجارت کے راستے میں جو رکاوٹیں کھڑی کی تھیں وہ ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہیں بلکہ بعض نئی رکاوٹوں نے پرانی رکاوٹوں کی جگہ لے لی ہے۔

محمد جواد ظریف نے ایرانی تاجروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں کہا ہےکہ اگر ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ اس معاہدے میں ہمارے فائدے کی کوئی بات نہیں ہے تو ہم اپنا ایٹمی پروگرام شروع کر دیں گے اور ہمیں اس سلسلے میں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔

محمد جواد ظریف  کا  کہنا ہے کہ ہم یہ  کام ایک لمحے میں انجام دے سکتے ہیں لیکن دوسرے فریق کو واپس پلٹنے یا اسنیپ بیک (snapback) کے لئے ایک پراسیس سے گزرنا پڑے گا۔

محمد جواد ظریف نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اسنیپ بیک کےمعنی یہ نہیں ہیں کہ اس بات کا راستہ ہموار ہوچکاہے کہ جو کوئی جب بھی چاہے وہ ایٹمی معاہدے کو منسوخ کرسکتا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ چھ ممالک کے وزرائے خارجہ کے پاس اور کوئی کام نہیں تھا کہ وہ دو سال تک وقت دیتے ، مذاکرات کرتے اور پھر اس معاہدے میں ایک ایسی شق شامل کرتے کہ وہ جب بھی چاہیں اس معاہدے کو منسوخ کرسکتے ہیں۔ ہم کو اس بات کی جانب توجہ دینی چاہئے کہ اسنیپ بیک اس بات کی ضمانت ہے کہ ہم مشترکہ جامع ایکشن پلان کو جاری رکھ سکتے ہیں۔

قرآئن سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ  امریکہ تعمیری تعاون کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور عدم اعتماد کا ماحول پیدا  کرنے کے لئے مسلسل کوشاں ہے۔ امریکہ منظم منصوبے کے تحت مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کو مشکل بنا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا والوں سے یہ بھی کہنا چاہتا ہے کہ اس نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدے کو ختم نہیں کیا ہے حالانکہ اس نے بارہا اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ امریکہ نہ صرف مشترکہ جامع ایکشن پلان بلکہ دوسرے بھی کسی موضوع کے بارے میں تعمیری تعاون کا خواہاں نہیں ہے۔ اس کا ہدف ایسی پالیسیاں مسلط کرنا ہے جن سے اس کے یکطرفہ مفادات پورے ہوتے ہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں کلائیمیٹ چینج سے متعلق پیرس ایگریمنٹ  (The Paris Agreement)  کی مخالفت سے لے کر مشرق وسطی کو اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی مخالفت تک کی مثالیں شامل ہیں۔

بہت سے ممالک کو حالیہ ایک عشرے کے دوران  امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کی بنا پر امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں کے باعث نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ مشترکہ جامع ایکشن  پلان کی کامیابی اس میں تھی کہ ایران کے خلاف پیدا ہونے والا نفسیاتی ماحول ختم ہوگیا۔ لیکن امریکہ ایران مخالف نفسیاتی ماحول بدستور برقرار رکھنے کے لئے کوشاں ہے۔ امریکہ کے بعض ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بعد دسیوں بل ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں منظوری اور عملدرآمد کے لئے پیش کئے۔ امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے اراکین یہ تاثر قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں کہ امریکہ کو ایران کے ساتھ تعلقات کی بھاری قیمت چکانا ہوگی۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر اس ماحول اور تاثر کو ختم نہ کیا گیا تو یہ جلد یا بدیر مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد اثر انداز ہوگا اور یہ ایسا مرحلہ ہے جو خطرات سے بھرا ہوا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی کے مطابق ایران اور مغرب کے درمیان طے پانے والے ایٹمی معاہدے کی کامیابی کا انحصار تعمیری تعاون پر ہے نہ کہ عدم استحکام کا شکار کرنے والی ان پالیسیوں پر جن کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ٹیگس