Nov ۲۱, ۲۰۱۷ ۱۵:۴۵ Asia/Tehran
  • رہبر انقلاب اسلامی کے نام جنرل سلیمانی کا اہم پیغام

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے قدس بریگیڈ کے کمانڈرجنرل سلیمانی نے رہبرانقلاب اسلامی کے نام ایک خط ارسال کرکے عراق اور شام میں داعش کے باقاعدہ خاتمے کا اعلان کیا اور اس دہشت گرد گروہ کی مدد کرنے میں امریکی کردار سے پردہ اٹھایا ہے۔

قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نے  داعش دہشت گرد گروہ کے خاتمے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس امر پر تاکید کی ہے کہ جس طرح سے شام کے شہر بوکمال میں کامیابی نصیب ہوئی اور داعش کا آخری گڑھ بھی تباہ ہوگیا، یہ کامیابیاں اسی طرح جاری رہیں گی اور داعش گروہ ہمیشہ کے لئے دنیا کے نقشے سے پاک ہوجائے گا۔ داعش کو شکست دینے والے اہم ترین عامل کی حیثیت سے ایران کا کردار اس حد تک اہمیت کا حامل ہے کہ عالم اسلام اور عالم عرب، اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنے نجات دہندہ کی حیثیت سے پہچانتا اور اس کے اس کردار کو سراہتا ہے۔

گذشتہ رات حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے بھی دہشت گردی کے چنگل سے علاقے کے ملکوں کو آزاد کرانے میں ایران کے کردار کی تعریف کی اور کنایۃ، رجعت پسندعرب حکومتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سردار سلیمانی عملی میدان میں داعش کے خلاف جنگ میں مجاہدوں کے شانہ بشانہ موجود تھے، لیکن ایسے مواقع پر تمہارے فوجی اور کمانڈرز کہاں تھے؟

شام اورعراق میں داعش کی حتمی شکست کے ساتھ ہی ایسے میں جبکہ مزاحمتی محاذ کو علاقے کی تبدیلیوں میں برتری حاصل ہے، قاہرہ میں عرب ملکوں نے یہ کوشش کی کہ اپنے ایران مخالف دعووں کی تکرار کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران کی مقبولیت کی لہر کے مقابلے میں ڈٹ جائیں۔ اس کے باوجود ان کا یہ تشہیراتی اقدام ، بہت سے عرب ملکوں کی اجلاس میں عدم موجودگی نیز علاقے کی تمام حکومتوں کی جانب سے ہمراہی نہ کرنے کے سبب ناکامی سے دوچار ہوگیا اور ایک بار پھر ریاض علاقے میں الگ تھلگ ہوگیا۔ 

علاقے میں ایران مخالف محاذ کی بے نتیجہ کوششوں کے ساتھ ہی ، سفارتی میدان میں ایران ، روس اور ترکی ، کہ جو داعش کے خاتمے کے بعد شام میں امن و استحکام کی برقراری میں اہم کردار کے حامل ہیں، عنقریب ہی ماسکو میں اکٹھا ہونے والے ہیں تاکہ شام کی حکومت کی پوزیشن کو مضبوط کریں اور شامی پناہ گزینوں کی واپسی کے لئے منصوبہ بندی کریں۔  فطری سی بات ہے کہ اگر ایرانی جانبازوں کی مزاحمت اور مدافعین حرم کی ایثار و قربانی نہ ہوتی تو ایرانی، روسی اور ترکی سفارتکار اس حد تک آسودگی کے ساتھ ماسکو میں اکٹھا ہوکر، دمشق میں امن کی بحالی کے لئے سیاسی میکنزم کے بارے میں منصوبہ بندی نہیں کرسکتے تھے۔ 

ایران اور اس کے اتحادیوں کی یہی پے در پے کامیابیاں ایک طرف ، تو دوسری طرف ریاض کی سفارتی کوششیں اور میدان جنگ میں اس کی شکست اس بات کا باعث بنی ہے کہ آل سعود ایک بار پھر علاقے میں تشدد کی آگ بھڑکانے کے درپے ہے اور قطر کے ساتھ جنگ کی آگ بھڑکانے میں  ناکامی کے بعد اس نے اب لبنان کا رخ کیا ہے اور اب اس ملک میں بدامنی پھیلانے میں کوشاں ہے۔

اس کے باوجود کیوں کہ سعودی حکومت یمن کے دلدل میں دھنس چکی ہے اس ملک کی فوجی دھمکیاں کسی بھی حکومت کے دل میں خوف و ہراس پیدا کرنے کا باعث نہیں بن سکتیں اور اس بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ داعش دہشت گرد گروہ کے سقوط کے ساتھ ہی آل سعود کی سیاسی اور فوجی چودھراہٹ کا وقت اب ختم ہوچکا ہے اور بن سلمان کو چاہئے کہ وہ اس وقت علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور تازہ حقائق کو درک کریں اور علاقے میں امن و استحکام کی بحالی کے لئے علاقے کے ملکوں کے ساتھ تعاون کریں

لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے مدنظر مفادات ، تعمیری تعاون اور اقتصادی معاملات میں توسیع کے ذریعے حاصل نہیں ہوں گے۔ بلکہ تفرقہ پھیلانے ، جنگیں کرانے، اور عراق ، شام ، یمن اور لبنان جیسے ملکوں میں عدم اعتماد اور خطروں سے بھرا ہوا ماحول اور فضا پیدا کرنے کے ذریعے ہی ان کے مفادات کو ضمانت حاصل ہوگی- اس لئے ریاض کی نظر میں ایران کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو اس کا ہم فکر بن جائے اور اس کی صف میں شامل ہوجائے- ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا ہے کہ ایران ان تمام ملکوں سے جو بین الاقوامی امن و صلح کے پابند ہیں، اور اسی طرح علاقے کے ملکوں اور پڑوسی ملکوں سے یہ اپیل کرتا ہے کہ وہ ان ملکوں کے مقابلے میں ڈٹ جائیں کہ جن کا ہدف و مقصد علاقے میں ایرانوفوبیا پھیلانا اور انسانی المیہ رونما کرنا ہے۔  

  

 

ٹیگس