Nov ۰۸, ۲۰۱۹ ۱۰:۲۴ Asia/Tehran
  • شام میں پھر اپنی فوجی موجودگی مضبوط کرنے کی کوشش میں امریکا؟ (دوسرا حصہ)

ٹرمپ کو در اصل یہ خوف نہیں ہے کہ تیل اور گیس کے ذخائر داعش کے ہاتھ لگ سکتے ہیں بلکہ انہیں یہ خوف ہے کہ یہ ذخائرشامی حکومت کو واپس مل سکتے ہیں۔ یہاں سے ساڑھے تین لاکھ بیرل تیل روزانہ نکلتا ہے۔

یہ شامی حکومت کا اہم اثاثہ ہے جس سے وہ انرجی کی ضرورتیں پوری کرتی ہے جبکہ باقی رقم ملک کی تعمیر نو پر خرچ کر سکتی ہیں۔

ہمیں نہیں لگتا کہ کرد فورسز اور امریکی فوجی، شام کے تیل ذخائر پر زیادہ دنوں تک قبضہ جاری رکھ پائيں گے۔ اس علاقے میں ان پر شام اور روس کا حملہ ہو سکتا ہے ۔

ٹرمپ کا معاملہ یہ ہے کہ انہیں پیسوں کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ انہوں نے کردوں کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ بھی اسی لئے کیا تھا کہ اس حمایت پر آنے والے اخراجات سے امریکا کو بچائیں۔

اب ہو سکتا ہے کہ وہ امریکی سیکورٹی کمپنیوں کی مدد سے شام کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں تاکہ شام کی سرزمین پر امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا خرچ وہیں سے نکال سکیں ۔

کردوں کی امریکی خیمے میں واپسی اور شام نیز روس کو دھوکہ دینا، اس بات کی نشاندہی ہے کہ کردوں پر ہرگز اعتماد نہیں کیا جا سکتا بالکل اسی طرح جیسے ٹرمپ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ کرد برادر اپنے قدیمی تجربات سے سبق نہیں لیتے بس امریکیوں اور اسرائیلیوں کی پشت پر زندہ باد زندہ باد کے نعرے لگاتے رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ اتحاد کرکے عربوں کو، ترکوں کو اور اب روس کو نشانہ بنانے کا خواب دیکھتے ہیں۔

شامی فوج کے جس نے ملک کی سرزمین کا زیادہ تر حصہ غیر ملکیوں کے قبضے سے آزاد کرایا ہے وہ شمال مشرقی شام کے علاقوں کو آزاد کرائے گی۔ امریکی یہاں سے فورا فرار ہوں گے اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے کرد ہی ہوں گے۔

ہمیں تو اس بات کا امکان بھی نظر آ رہا ہے کہ اب شام اور ترکی کے درمیان تعاون شروع جائے گا۔

شکریہ

رای الیوم

عبد الباری عطوان

 

* سحر عالمی نیٹ ورک کا مقالہ نگار کے موقف سے متفق ہونا ضروری نہيں ہے *

ٹیگس