Apr ۰۶, ۲۰۱۷ ۲۲:۵۵ Asia/Tehran
  • خواہشات نفس پر کنٹرول کرو ورنہ ۔۔۔

تحریر : حسین اختر رضوی

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: تم اپنی خواہشات سے بالکل اسی طرح ڈرتے رہو جس طرح اپنے دشمنوں سے ڈرتے ہو کیونکہ انسان کے لئے خواہشات کی پیروی اور گفتگو کے نتائج سے بڑا کوئی دشمن نہیں ہے۔ انسانی زندگی میں نفس اور''خواہشات ''کیا کردار ادا کرتے ہیں اس کے لئے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ خداوند عالم نے ہر انسان کو متحرک و فعال رکھنے اور علم و کمال کی جانب گامزن کرنے کے لئے اس کے وجود میں کچھ بنیادی محرکات رکھے ہیں اور انسان کی تمام ارادی اور غیر ارادی حرکات نیز اس کی مادی و معنوی ترقی انہیں بنیادی محرکات کی مرہون منت ہیں، یہ محرکات چھ چیزوں پر مشتمل ہیں اور ان میں سب سے اہم محرک ''ھویٰ'' یعنی خواہشات نفس ہے۔

وہ خواہشات و جذبات جو انسان کے نفس میں پائے جاتے ہیں اور ہر حال میں انسان سے اپنی تکمیل کا مطالبہ کرتے ہیں اور ان کی تکمیل کے دوران انسان لذت محسوس کرتا ہے۔ انسان کو متحرک رکھنے اور اسے علم و معرفت سے مالا مال کرنے کے یہ اہم ترین محرکات ہیں جنہیں اللہ نے انسانی وجود میں ودیعت فرمایا ہے ۔ نفسیات کے اس گوشہ پر ابھی اسلامی نقطہ نظر سے مزید غور وفکر اور بحث وجستجو کی ضرورت ہے۔

جب ہم اسلامی علوم میں ھویٰ کے معانی تلاش کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن میں ھویٰ انسان کے اندر پوشیدہ ان خواہشات اور تمنائوں کو کہا جاتا ہے جو انسان سے اپنی تکمیل کے خواہاں ہوتے ہیں اور انسان کی شخصیت میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ یہ انسان کو متحرک بنانے اور اسے آگے بڑھانے کا ایک بنیادی سبب نیز اس کی تمام ارادی اور غیرارادی حرکتوں کی اہم کلید ہیں۔

انسانی زندگی کی تعمیر یا بربادی میں اس کی نفسانی خواہشوں کے مثبت اور منفی کردار سے واقفیت کے لئے سب سے پہلے ان کی اہم خصوصیتوں کا جاننا ضروری ہے۔ اپنی چاہت کی تکمیل میں بالکل آزاد اور بے لگام ہونا، انسانی خواہشات کی سب سے پہلی اور اہم ترین خصوصیت ہے البتہ سیر ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے اس کے مختلف درجات ہیں کیونکہ کچھ خواہشات تو ایسی ہوتی ہیں جن سے کبھی سیر نہیں ہوا جا سکتا چاہے جتنا بھی اس کی تکمیل کی جائے اس کی طلب اور چاہت میں کمی نہیں آتی ۔ جب کہ کچھ خواہشات ایسی ہیں جو وقت کے ساتھ ماند تو پڑجاتی ہیں مگر قدرے تاخیر سے ۔

مختصر یہ کہ ان تمام خواہشات کے درمیان اعتدال اور توازن کے بجائے شدت طلبی ایک مشترکہ صفت ہے۔ جیسا کہ رسول اسلام (ص) ارشاد فرماتے ہیں: اگر فرزند آدم کے پاس مال و دولت کی ایک وادی ہوتی تو وہ دوسری وادی کی تمنا کرتا اور اگر اس کے پاس ایسی ہی دو وادیاں ہوتیں تب بھی اس کو تیسری وادی کی تمنا رہتی، اولاد آدم کا پیٹ مٹی کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں بھر سکتا ۔  پیغمبر اکرم نے یہ بھی فرمایا ہے اگر آدمی کو سونے کی دو وادیاں مل جائیں تو بھی اسے تیسری وادی کی تلاش رہے گی۔

جناب حمزہ بن حمران کہتے ہیں کہ ایک شخص نے فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں شکایت کی کہ مجھے جس چیز کی خواہش ہوتی ہے وہ مجھے مل جاتی ہے تب بھی میرا دل اس پر قانع نہیں ہوتا ہے اور مزید کی خواہش باقی رہتی ہے لہٰذا مجھے کوئی ایسی چیز تعلیم فرمائیے جس سےمیرے اندر قناعت پیدا ہوجائے اور مزید کی خواہش نہ رہے تو امام علیہ السلام نے فرمایا:''جو چیز تمہارے لئے کافی ہے اگر وہ تمہیں مستغنی بنا دے تو دنیا میں جو کچھ موجود ہے اس کا معمولی سا حصہ بھی تمہیں مستغنی بنانے کے لئے کافی ہے اور جو چیز تمہارے لئے کافی ہے اگر وہ بھی تمہیں مستغنی نہ بنا سکے تو پھر پوری دنیا پاکر بھی تم مستغنی نہیں ہوسکتے۔     

 

 

ٹیگس