Sep ۱۶, ۲۰۱۵ ۱۵:۴۷ Asia/Tehran
  • پی ایل او  کے اعلی عہدیدار نبیل شعث
    پی ایل او کے اعلی عہدیدار نبیل شعث

پی ایل او کے اعلی عہدیدار نبیل شعث نے کہا ہے کہ فلسطین کی محدود خود مختار انتظامیہ اوسلو معاہدے پر عمل درآمد روکنے کے لئے پختہ عزم رکھتی ہے کیونکہ اسرائيل اس معاہدے کی پابندی نہیں کررہا ہے۔

نبیل شعث نے جو خود بھی ساز باز مذاکراتی عمل کے ایک رکن ہیں کہا ہے کہ اوسلو معاہدے کو بائيس برس گزرنے کے باوجود اسرائيل نے اس پرعمل نہیں کیا ہے جبکہ فلسطینی فریق اس معاہدے پر بدستور کار بند ہے۔
اوسلو معاہدہ جس کا سرکاری نام فلسطین کی محدود خود مختار انتظامیہ کی ترجیحات کا اعلان ہے، اسرائيل اور پی ایل او کے درمیاں منعقد ہونے والا پہلا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے پر انیس سو ترانوے میں دستخط کئے گئے تھے۔
جو مذاکرات اس معاہدے پر منتج ہوئےتھے وہ خفیہ طور پر ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں انجام پائے تھے۔ اس معاہدے پر پی ایل او کے سابق سربراہ یاسر عرفات اور صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم اسحاق رابین نے امریکی صدر بل کلنٹن کی موجودگي میں دستخط کئے تھے۔
اوسلو معاہدہ کی بدولت ہی محدود خود مختار فلسطینی انتظامیہ ایک عارضی ادارے کی حیثیت سے وجود میں آئي۔ اس وقت یہ طے پایا تھا کہ اوسلو معاہدہ صرف پانچ سال کے لئے معتبر رہے گا اور اس کے بعد ایک دائمی معاہدہ اس کی جگہ لے لے گا۔ دائمی معاہدے میں بیت المقدس کی صورتحال، فلسطینی پناہ گزینوں کامسئلہ، یہودی کالونیاں، اور سرحدوں کا تعین نیز سیکورٹی مسائل  زیر غور آنے والے تھے۔
 نبیل شعث کا بیان ایسے حالات میں سامنے آرہا ہے کہ  کچھ دنوں قبل پی ایل او کی مجلس عاملہ کے سیکریٹری جنرل اور سینئر مذاکرات کار صائب عریقات نے کہا تھا کہ یورپ کی ثالثی سے اسرائیل کے ساتھ ساز باز مذاکرات شروع کرنا جال میں پھنسنا اور ایک منفی اقدام ہے۔
صیہونی حکومت کے ساتھ ساز باز معاہدوں کو کالعدم قراردیے جانے، ان کے بے فائدہ ہونے نیز ان کے منفی نتائج کے بارے میں  فلسطین کی محدود خود مختار انتظامیہ کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات سے فلسطینیوں کے لئے ساز باز مذاکراتی عمل  کی سازشی ماہیت ظاہر ہوتی جارہی ہے۔
 بلاشبہ ساز باز مذاکرات کے باوجود صیہونی حکومت کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ صیہونی حکومت کی جانب سے  توسیع پسندی اور تسلط پسندی پر اصرار ہی ساز باز مذاکرات میں تعطل آنے اور فلسطینیوں کو اس سازش کے شدید نقصانات پہنچنے کا بنیادی سبب ہے۔ ساز باز مذاکرات کو دوبارہ شروع کرانے کی کوششیں ایسے حالات میں شروع ہورہی ہیں کہ وہ اسباب جو ان مذاکرات کو معطل کرنے کے ذمہ دار ہیں صیہونی حکومت کی جانب سے بدستور جاری ہیں۔

یاد رہے صیہونی حکومت کی جانب سے یہودی کالونیوں کی تعمیر اور اس کی غیر ذمہ دارانہ کارروائياں، فلسطین کی آزاد ریاست کی تشکیل نیز فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی مخالفت جیسے مسائل بدستور موجود  ہیں۔
 محدود خود مختار انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس کے سازشی اقدامات  اور مجموعی طورپر مشرق وسطی میں ساز باز عمل کے نتیجے میں ماضی کی طرح فلسطینی علاقوں پر صیہونی حکومت کے جرائم اور حملوں میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ مشرق وسطی میں مذاکرات کی سازش صرف اور صرف امریکی اور صیہونی مفادات کے لئے رچی گئی ہے اور ان مذاکرات میں مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی توانائي نہیں ہے لہذا یہ سازش پہلے ہی سے شکست خوردہ سازش قرار دی  جارہی ہے اور عالمی رائے عامہ اسے مسترد کرچکی ہے۔
حالیہ برسوں میں فلسطینیوں کی جانب سے مستقل فلسطینی ریاست کی تشکیل کے لئے عالمی اداروں میں اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوششوں، صیہونی حکومت کی تسلط اور توسیع پسندی کے مقابل دلیرانہ پائدارای سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلسطین کے اھداف و مقاصد تک پہنچنے کی واحد راہ انتفاضہ اور فلسطینیوں کی استقامت ہے۔

ٹیگس