Sep ۲۶, ۲۰۱۵ ۱۶:۲۱ Asia/Tehran
  • افغانستان میں اپنے فوجی باقی رکھنے کے لیے امریکہ کے نئے بہانے
    افغانستان میں اپنے فوجی باقی رکھنے کے لیے امریکہ کے نئے بہانے

ایک ایسے وقت میں کہ جب افغانستان میں ہر روز بدامنی اور تشدد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، امریکہ کے فوجی حکام نے کہا ہے کہ ممکن ہے ہزاروں امریکی فوجی دو ہزار سولہ کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہیں۔

اگرچہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے دفاعی حکام اور ان کے اتحادی افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کم کرنے کے آپشنوں کا جائزہ لے رہے ہیں لیکن اس کا مطلب افغانستان سے مغربی فوجیوں کا مکمل انخلا نہیں ہے بلکہ وہ ایسا راستہ تلاش کرنے کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے ہزاروں فوجی دو ہزار سولہ کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہیں۔

امریکی حکومت نے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کو کم سے کم کر دے گی اور وہ افغانستان میں اپنے اڈوں کے اندر تعینات ہوں گے۔ لیکن حال ہی میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان کیمپبیل نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی جاری رہنے کے بارے میں پانچ درخواستیں امریکی وزارت دفاع پینٹاگون اور برسلز میں نیٹو کے حکام کو بھیجی ہیں اور ان کے رسک اور خطرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے امریکہ کے فوجی حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان میں سے ایک آپشن افغانستان میں آٹھ ہزار غیرملکی فوجیوں کو باقی رکھنا ہے۔ البتہ جان کیمپبیل نے یہ تعداد ہزاروں سے کم کر کے سیکڑوں میں کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔ لیکن چونکہ امریکی حکام کا یہ خیال ہے کہ امریکی اور مغربی فوجیوں کے بڑے پیمانے پر انخلا سے افغانستان کی حکومت کو طالبان اور دوسرے جنگجو اور دہشت گرد گرہوں سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اس لیے ایسا نہیں لگتا کہ امریکی وزارت دفاع پینٹاگون اس تجویز کو قبول کرے گی۔

امریکہ میں بعض سیاسی و فوجی حلقوں کا یہ خیال ہے کہ افغان حکومت صرف چند سو امریکی فوجیوں کی مدد سے مؤثر طور پر کام کر سکتی ہے۔ امریکہ کے ایک اعلی حکومتی عہدیدار کے بقول وائٹ ہاؤس کی توجہ افغان فوجیوں کو تربیت دینے اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں پر مرکوز ہے۔ اگرچہ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی جاری رہنے کے بارے میں اس وقت مختلف نظریات پیش کیے جا رہے ہیں لیکن جس بات کی تمام فوجی ماہرین تائید کرتے ہیں، یہ ہے کہ امریکہ کسی بھی طرح افغانستان سے اپنی فوج نکالنے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے اور وہ دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ کرنے اور افغان فوجیوں کو تربیت دینے جیسے مختلف بہانوں سے اس ملک میں اپنے فوجیوں کو باقی رکھنا چاہتا ہے۔

یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب امریکہ نے افغانستان میں اپنی چودہ سال کی فوجی موجودگی میں افغانستان کی فوج اور پولیس کو مسلح کرنے، مضبوط بنانے اور تربیت دینے کے لیے کوئی مثبت اقدام نہیں کیا ہے اور اس وقت اس ملک کے فوجی حکام کے بقول افغان فوج کے پاس دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ساز و سامان خاص طور پر فضائیہ کی طاقت نہیں ہے۔ اس بنا پر امریکی فوج کی جانب سے افغان فوج کی تربیت جیسی مختلف باتیں افغانستان میں اپنے فوجیوں کو باقی رکھنے کے لیے امریکہ کے بہانے ہیں۔

افغانستان میں دہشت گرد گروہ داعش کے بڑھتے ہوے اثر و رسوخ نے کہ جو اس جیسے دیگر گروہوں کی مانند امریکہ کا پروردہ ہے، امریکہ اور نیٹو کو ایک نیا موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے افغانستان پر اپنے قبضے کو بدستور باقی رکھیں۔ داعش کا مقابلہ کرنے کے بہانے برطانوی فوجیوں کی افغانستان واپسی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اس وقت امریکہ نرم پالیسی اپنا کر اور افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کے منصوبوں کا نام نھاد جائزہ لے کر ایک طرح سے خود کو افغان عوام کا نجات دہندہ ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ افغانستان میں بدامنی اور بحران کا جاری رہنا خود امریکہ کی وجہ سے ہے اور اسی بحران اور بدامنی کے جاری رہنے کے بہانے وہ افغانستان میں موجود رہنا چاہتا ہے۔

ٹیگس