Oct ۱۲, ۲۰۱۵ ۱۴:۱۵ Asia/Tehran
  • اسرائیل میں حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج
    اسرائیل میں حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج

خبروں کے مطابق صیہونی حکومت کے حکام اور شہریوں کے درمیان خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے۔

غاصب اور جعلی صیہونی حکومت کو بدستور داخلی بحرانوں کا سامنا ہے جن میں سے ایک بحران یہ ہے کہ صیہونی شہریوں کو صیہونی حکام پر کوئی بھروسہ اور اعتبار نہیں رہا ہے۔

مختلف رپورٹیں اور سروے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ صیہونی معاشرے میں پیدا ہونے والی یہ خلیج روز بروز گہری ہوتی جا رہی ہے۔ اسرائیل میں ایک تازہ سروے کے نتائج کے مطابق صیہونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی عوام میں مقبولیت روز بروز کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔

اسرائیل میں ہونے والے مختلف سروے رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے انہتر فیصد باشندے صیہونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی کاکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ یہ سروے صیہونی حکومت کے تشدد آمیز اقدامات کے جواب میں اسرائیلی حکومت کے خلاف فلسطینی مزاحمتی گروہوں اور عوام کی کارروائیوں کے بعد کیے گئے ہیں۔ ان کارروائیوں نے صیہونیوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔

قدس اور دریائے اردن کے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی صیہونیت مخالف کارروائیوں کے بعد اسرائیلی پارلیمنٹ کنسٹ کے ارکان نے چاہے ان کا تعلق حکمراں جماعت سے ہو یا حزب اختلاف سے، بنیامین نیتن یاہو پر سخت تنقید کی ہے۔

اس سلسلے میں "اسرائیل ہمارا گھر پارٹی" کے سربراہ اویگدور لیبر مین نے کہ جو فلسطینیوں کے خلاف انتہائی مخاصمانہ اور سخت موقف میں مشہور ہیں، قدس میں حالیہ کارروائی کے نتیجے میں صیہونی حکام کی بےچارگی کا اعتراف کیا ہے۔

صیہونی حکومت کی سابق وزیر خارجہ زیپی لیونی نے بھی اعلان کیا ہے کہ بنیامین نیتن یاہو قدس اور دریائے اردن کے مغربی کنارے میں حالات کو کنٹرول کرنے پر قادر نہیں ہیں جس سے اس علاقے میں حالات سخت خراب ہو گئے ہیں۔ اسرائیل کی مرتص پارٹی کے سربراہ نے بھی کہا ہے کہ بنیامین نیتن یاہو صرف بکواس کرتے ہیں اور اپنے دوستوں کو رشوت دیتے ہیں اس بنا پر وہ ایک ناکام اور شکست خوردہ وزیراعظم ہیں جنھیں اب جانا چاہیے۔

حالیہ برسوں کے دوران نیتن یاہو کی ناکام کارکردگی نے غاصب صیہونی حکومت کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی بحرانوں میں شدت پیدا کی ہے جس کے نتیجے میں صہونی حکام کے خلاف عوامی احتجاج میں اضافہ ہوا ہے۔ صیہونی حکومت میں آنے والی حالیہ سیاسی تبدیلیاں اس حکومت کے سیاسی اختلافات اور اقتدار کی جنگ کے حوالے سے ایک زیادہ خطرناک مرحلے میں داخل ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔

بنیامین نیتن یاہو کے خلاف ہونے والے مظاہرے اور گزشتہ مہینوں کے دوران ہونے والے سروے کے نتائج اسرائیل کے سیاسی میدان میں نیتن یاہو کی پوزیشن مزید کمزور ہونے کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب صیہونی حکومت کے مختلف بحرانوں سے دوچار ہونے سے بھی اس جعلی حکومت کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے اور اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ صیہونیت مخالف تحریک مزاحمت کی شدید ضربوں نے صیہونی حکومت کے زوال کے سفر میں تیزی پیدا کر دی ہے۔

صیہونی حکومت کی تبدیلیاں بھی اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ صیہونی حکومت کے سیاسی میدان میں بنیامین نیتن یاہو کے تمام اندازے غلط ثابت ہو گئے ہیں۔ نیتن یاہو مارچ دو ہزار پندرہ میں قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کروا کر سیاسی میدان میں اپنی کمزور پوزیشن کو بہتر بنانا چاہتے تھے۔ لیکن صیہونی حکومت کے پارلیمانی انتخابات میں نیتن یاہو کی معمولی برتری اور اس حکومت کے سیاسی و اقتصادی حالات خراب ہونے سے، اسرائیل کے سیاسی میدان میں ان کی پوزیشن مزید خراب ہونے کا پتہ چلتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی دیگر صیہونی حکام کی مانند صیہونی معاشرے میں اپنی ساکھ اور اعتبار کھو چکے ہیں۔

صیہونی معاشرے میں مختلف قسم کی بدامنی میں اضافہ، صہونی حکومت میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی و بدانتظامی اور اس معاشرے میں سیاسی تنازعات کا جاری رہنا، صیہونی معاشرے میں موجود تاریک اور اندھیری فضا کا عکاس ہے۔

ٹیگس