Oct ۱۶, ۲۰۱۵ ۱۸:۴۵ Asia/Tehran
  • شام کے سلسلے میں امریکی موقف پر پوتین کی نکتہ چینی
    شام کے سلسلے میں امریکی موقف پر پوتین کی نکتہ چینی

روسی صدر ولادیمیر پوتین نے شام کے بحران کے سلسلے میں امریکی موقف پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں سیاسی اقدام کے لئے روس کی درخواست مسترد کئے جانے کا واشنگٹن کا فیصلہ غیر تعمیری ہے، جس سے اس امر کی مکمل نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ مذاکرات نہیں چاہتا ہے

پوتین نے کہا کہ میں واقعی یہ نہیں سمجھ پا رہا ہوں کہ آخر امریکی حکام، شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں روسی اقدام کو کیوں ہدف تنقید بنا رہے ہیں اور شام کے بحران کے سیاسی حل کے بارے میں وہ براہ راست مذاکرات سے کیوں انکار کر رہے ہیں- پوتین کا اشارہ اس جانب ہے کہ امریکہ، روسی وزیر اعظم دمیتری مدودیف کی قیادت میں روسی وفد کے ساتھ بحران شام سے متعلق دونوں ملکوں کے اختلافات کے بارے میں مذاکرات انجام دیئے جانے سے انکار کر رہا ہے –


امریکہ کا یہ کہنا ہے وہ روس کے ساتھ اس وقت مذاکرات کرے گا جب روس، واشنگٹن کی قیادت میں قدم اٹھائے گا اور شام میں بشار اسد حکومت کی مدد و حمایت بند کردے گا- روسی صدر نے امریکہ کے اس موقف کا سبب، ایک واضح ایجنڈے کا فقدان قرار دیا ہے- پوتین نے کہا کہ شام میں روس کے اقدام پر نکتہ چینی کرنے کے باوجود، روس کی جانب سے مذاکرات کی دعوت دیئے جانے اور امریکہ کی جانب سے اسے مسترد کئے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت اس بحران کا حل نہیں چاہتی ہے-


روسی صدر کے بقول شام کے بحران کے حل کے سلسلے میں تعاون کے لئے، چنداں امید نظر نہیں آرہی ہے اس کے باوجود ماسکو تعاون کے لئے آمادہ ہے- شام کے سلسلے میں امریکہ کے موجودہ موقف پر پوتین کی شدید نکتہ چینی سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ، حقیقت میں شام کے موجودہ بحران سے نکلنے کے طریقۂ کار کے بارے میں واشنگٹن میں کسی منظم پالیسی کا فقدان پایا جاتا ہے-


امریکہ اپنے مغربی اور عرب اتحادیوں کے ہمراہ شام کے بحران کے آغاز سے ہی شام کی حکومت کا تختہ الٹنے کے درپے ہے اور اس سلسلے میں اس نے بہت زیادہ اقدامات بھی انجام دیئے ہیں اور شام کے مخالف مسلح گروہوں کو ٹریننگ دینے سمیت ان کی لاجسٹک ، اسلحہ جاتی اور مالی مدد کی ہے اور انہیں خفیہ معلومات فراہم کی ہیں- روس نے ہمیشہ بحران شام کے سلسلے میں واشنگٹن کی موجودہ پالیسی کو ہدف تنقید بنایا ہے-


ولادیمیر پوتین کے نقطۂ نگاہ سے مغربی ممالک شام میں اپنے ناجائز اور غیر قانونی اہداف کے حصول کی کوششیں انجام دینے کے سبب، شام میں داخلی بحران اور جنگ کا حقیقی سبب ہیں- یہ بات ذہن نشیں رہے کہ امریکہ اور اس کے مغربی اور عرب اتحادی ملکوں نے، شام میں دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے انہیں ٹریننگ دینے اور انواع و اقسام کے ہتھیاروں سے مسلح کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس وقت وہ اپنے مفادات خطرے میں پڑتا ہوا دیکھ کر ان دہشت گرد گروہوں میں سے ایک گروہ یعنی داعش کے خلاف جنگ کے مدعی ہیں- جبکہ پوتین نے داعش کے خلاف قائم ہونے والے نام نہاد اتحاد کے اقدامات کو غیر موثر قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس اتحاد کے توسط سے جو اقدامات انجام پارہے ہیں اور ان کی جو اسٹریٹیجی اور ٹیکٹک ہے وہ موجودہ خطرات کی ماہیت اور پہلوؤں سے تناسب نہیں رکھتی- ساتھ ہی امریکہ شام کی حکومت کے نام نہاد اعتدال پسند مخالفین کی حمایت اور ان کو تربیت دینے کی پالیسی کے غیر موثر ہونے کے برملا ہوجانے کے باوجود بھی اس وقت شام کے بحران کے سیاسی حل کے لئے کسی جدت عمل کا مظاہرہ کر رہا ہے نہ ہی اس سلسلے میں ٹھوس حمایت کر رہا ہے-


در حقیقت شام کےموجودہ سیاسی نظام کی تبدیلی کے سلسلے میں کسی حدتک لچک کا مظاہرہ کئے جانے کے باوجود، امریکی حکام ، سعودی عرب اور قطر کے ساتھ مل کر، شام کے بحران کی سیاسی راہ حل کے ایک حصے کے طور پر صدر بشار اسد کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے مسئلے پر زور دے رہے ہیں- جبکہ روسی حکام بشار اسد کے اقتدار میں رہنے کو ہی شام کے استحکام کا ضامن قرار دیتے ہیں اور وہ شام کے مسئلے کے سیاسی حل اور داعش سے مقابلے کے لئے مغربی ملکوں سے تعاون کے خواہاں ہیں-


یہ ایسی حالت میں ہے کہ یورپی ممالک بھی شام کے بحران کے حل کے لئے روس کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت پر زوردے رہے ہیں – جیسا کہ جرمن چانسلر انجلا مرکل نے اپنے ملک کے پارلیمانی اجلاس کے دوران بحران شام کے حل کے لئے، روس اور مشرق وسطی کے دیگر ملکوں کے ساتھ، مذاکرات میں توسیع لانے کی ضرورت پر تاکید کی ہے- اس کے باوجود واشنگٹن اس سلسلے میں روڑے اٹکا رہا ہے اور شام کے موجودہ بحران کے جاری رہنے کا سبب بنا ہوا ہے-

ٹیگس