عورتیں، دہشت گردی اور تشدد کا سب سے زیادہ شکار
Oct ۱۷, ۲۰۱۵ ۱۴:۱۷ Asia/Tehran
-
قوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب مستقل نمائندے غلام حسین دہقانی
اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب مستقل نمائندے غلام حسین دہقانی نے "عورتیں، امن و سلامتی" کے موضوع پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ تشدد آمیز انتہا پسندی اور تکفیری نظریات علاقے میں عورتوں کی زندگی اور حقوق کے لیے ایک ایسا خطرہ بنے ہوئے ہیں کہ جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
غلام حسین دہقانی نے جمعہ کے روز سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ تنازعات نے خاص طور پر مشرق وسطی کے علاقے میں نئے پہلو اختیار کر لیے ہیں اور ان کی وجہ سے علاقے کے بعض علاقوں میں عورتیں دہشت گردی اور انتہا پسند تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں۔پوری دنیا میں ہونے والی اب تک کی تمام جنگوں میں عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد ان کا شکار ہوئی ہے۔ خاص طور پر ان تنازعات میں کہ جن کا دائرہ شہروں تک پھیل جاتا ہے اور لوگوں کے گھر اور غیرفوجی مقامات براہ راست مسلح افواج کی جھڑپوں کا میدان بن جاتے ہیں۔ کیونکہ جنگوں کا شکار ہونے والے ان بچوں اور عورتوں کی اکثریت کی اپنے گھروں کے علاوہ نہ تو کوئی پناہ گاہ اور نہ ہی کوئی محفوظ ٹھکانا ہوتا ہے۔
مشرق وسطی کے کئی ممالک حالیہ برسوں کے دوران جنگ، تشدد اور دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ وہ دہشت گردی کہ جو ایسے تکفیریوں کے اندھے تعصب اور جہالت کا نتیجہ ہے کہ جو عورتوں، مردوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کا خون بہانے کو مباح سمجھتے ہیں۔
ان تکفیریوں نے کہ جو اپنے مفتیوں کے جاہلانہ اور رجعت پسندانہ احکامات کی پیروی کرتے ہیں، شرمناک اور غیرانسانی احکامات پر عمل درآمد کر کے عورتوں کو منظم تشدد اور ظلم کا نشانہ بنایا ہے کہ جس نے عالمی رائے عامہ کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ شام میں مختلف جھڑپوں اور شہروں کے اندر لڑی جانے والی جنگ نے شامی عوام کے گھروں کو بچوں کی قربان گاہ اور عورتوں کے خلاف جرم اور تشدد کے میدان میں تبدیل کر دیا ہے۔
شام کی عورتیں قید، غلامی اور جبری شادیوں جیسے تکفیریوں کے شرم ناک اور غیرانسانی احکامات کے ذریعے سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہو رہی ہیں۔ عراق میں گزشتہ دو سال کے دوران سنجار سمیت اس ملک کے بعض شہروں میں داعش کے دہشت گردوں کی پیش قدمی کے بعد مردوں کو قتل اور عورتوں کو اغوا کیا گیا ہے اور ان نہتی عورتوں کی خرید و فروخت اور ان کے جنسی استحصال کے بارے میں جو رپورٹیں منظرعام پر آتی ہیں، وہ عورتوں کے خلاف داعش کے منظم تشدد اور حیوانیت کی عکاسی کرتی ہیں۔
یمن میں گزشتہ سات ماہ کے دوران اس ملک کے بےگناہ اور نہتے عوام پر سعودی عرب کی وحشیانہ بمباری میں ان کے گھر تباہ کیے جا رہے ہیں اور اس بمباری نے لوگوں کے گھروں کو عورتوں، بچوں اورعام شہریوں کے مقتل میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس بدامنی، تشدد اور انتہا پسندی کی کوئی سرحد نہیں ہے اور علاقے اور علاقے سے باہر کے ممالک اس کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔
جیسا کہ اقوام متحدہ میں ایران کے نائب مستقل نمائندے نے بھی کہا ہے کہ تکفیریوں کے خطرناک نظریات مشرق وسطی کے علاقے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ دنیا کے دیگر علاقوں کے لیے بھی یہ سنگین خطرہ ہیں۔