تہران سیکورٹی اجلاس، مشترکہ تعاون کے لیے ایک موقع
Oct ۱۷, ۲۰۱۵ ۱۵:۰۶ Asia/Tehran
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے مطالعاتی مرکز میں پہلی بار میونخ سیکورٹی کانفرنس کا سیکورٹی اجلاس منعقد ہوا ہے۔
جرمنی، لبنان، عمان، عراق اور افغانستان کے وزرائے خارجہ، عراقی کردستان کے علاقے کی انتظامیہ کے سربراہ نچیران بارزانی، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی نائب سربراہ ہیلگا اشمید اور شام کے امور میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی ایلچی کے معاون رمزی عزالدین رمزی تہران میں ہونے والے میونخ سیکورٹی کانفرنس کے مقدماتی اجلاس کے مندوبین میں شامل تھے۔ یہ اجلاس ایران اور جرمنی کے تعاون سے منعقد ہوا ہے۔شام کا بحران اور ایٹمی سمجھوتے کے بعد ایران کا علاقائی اور عالمی کردار تہران میں میونخ سیکورٹی کانفرنس کے مقدماتی اجلاس کا اہم ترین موضوع ہے۔ میونخ سیکورٹی کانفرنس میں سالانہ اجلاس منعقد کرنے کے علاوہ جرمنی سے باہر دنیا کے مختلف علاقوں میں اہم علاقائی اور بین الاقوامی موضوعات کے بارے میں منظم طریقے سے اجلاس منعقد کرتی ہے۔
تہران سیکورٹی اجلاس علاقے اور یورپ کے ممالک کے لیے ایک اہم اور بہترین موقع ہے کہ وہ علاقے کے مسائل خاص طور پر عصر حاضر میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے کے بارے میں بات چیت کریں۔
ایٹمی سمجھوتے کے بعد کا دور مختلف ممالک کے لیے ایک مناسب دور ہے کہ وہ باہمی احترام اور تعمیری تعاون کی بنیاد پر، امن کے حامی اور محافظ ملک کی حیثیت سے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اپنے دو طرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات قائم کر کے انھیں از سرنو ترتیب دیں۔
ایران علاقے میں ایک اہم اور با اثر ملک کی حیثیت سے علاقائی توازن قائم کرنے اور مشکلات و مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار کا حامل ہے۔ ایران باہمی اور تعمیری تعاون کو شام کے بحران سمیت علاقائی بحرانوں کی واحد راہ حل سمجھتا ہے۔
ایران کا یہ خیال ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ، بحران شام کے حل کے لیے کسی بھی سیاسی عمل کا پہلا قدم ہے۔ داعشی دہشت گردی کہ جو آج مشرق وسطی کے علاقے خاص طور پر شام اور عراق میں انسانیت سوز کارروائیوں کے نئے باب رقم کر رہی ہے، تمام ملکوں کے لیے ایک چیلنج میں تبدیل ہو گئی ہے اور مختلف ممالک نے کسی نہ کسی شکل میں داعش سے نقصان اٹھایا ہے۔
شام کے ہمسایہ ممالک میں بدامنی میں اضافہ، سعودی عرب کے مشرقی علاقوں اور ترکی میں دہشت گردی کی کارروائیاں اور شامی پناہ گزینوں کی یورپ کی سمت مہاجرت، علاقے میں داعشی دہشت گردی پھیلنے کے نقصانات میں سے ہیں۔ شام میں دہشت گردی کا خاتمہ کر کے ہی اس ملک کے بحران کے حل کے سلسلے میں دیگر مراحل میں داخل ہوا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں دہشت گردی کو اچھی اور بری میں تقسیم کرنے سے علاقے اور دنیا میں امن قائم کرنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔
ایٹمی سمجھوتہ دنیا والوں کے سامنے ایک کامیاب تجربہ ہے کہ وہ مقابل فریق کے مطالبے کے احترام اور مذاکرات سے، مختلف مشکلات اور مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران اس اہم اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے بحران شام کے سیاسی حل پر زور دیتا ہے اور پہلے مرحلے میں دہشت گردی کے خاتمے اور باہمی تعاون کے دائرے میں اس کی جڑوں کو کاٹنے کو ضروری سمجھتا ہے۔
دہشت گردی کے خاتمے کے بعد شامی عوام کی خواہش کا احترام اس ملک کے بحران کے سیاسی حل کے لیے اہم ترین شرط اور اقدام ہے۔ اسی تناظر میں ایران نے بحران شام کے حل کے لیے اپنی تجویز پیش کی ہے۔ ایران اپنی اس تجویز کے تناظر میں بحران شام کے حل اور علاقے میں دہشت گردی کو جڑوں سے ختم کرنے کے لیے تمام ممالک کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
بحران شام کے حل کے بارے میں ایران کی حقیقت پسندانہ سوچ، مختلف ممالک کے ساتھ تعاون کے تناظر میں علاقے اور دنیا کے امن اور سلامتی کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ ایران کا یہ خیال ہے کہ دنیا کے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مشترکہ تعاون کر کے امن و سلامتی حاصل کر سکتے ہیں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
تہران میں میونخ سیکورٹی کانفرنس کا مقدماتی اجلاس علاقے اور دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے مشترکہ تعاون کے اصول کو پیش نظر رکھنے کی ایک کوشش ہے اور اسی مقصد کو سامنے رکھ کر یہ اجلاس منعقد کیا گیا ہے۔