چین سے جنوبی کوریا کی درخواست
جنوبی کوریا نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے ایٹمی مسئلے کو حل کرنےکے لئے تعمیری کردار ادا کرے-
اس سلسلے میں جنوبی کوریا کی وزارت دفاع نے انیس اکتوبر کو اعلان کیا کہ سئول، چین کو شمالی کوریا کے مسئلے کے حل میں تعمیری کردار ادا کرنے اور انجام شدہ مذاکرات کے نتائج کو عملی جامہ پہنانے میں مدد پر راضی کرنے کے لئے اپنی کوششیں دوگنا کردے گا-
جنوبی کوریا کی انجام شدہ مذاکرات سے مراد واشنگٹن میں ہونے والی وہ گفتگو ہے جو ابھی حال ہی میں جنوبی کوریا کی صدر پارک گئون ھای اور امریکی صدر باراک اوباما کے درمیان واشنگٹن میں انجام پائی ہے-
سئول ، واشنگٹن میں دو صدور کے درمیان انجام شدہ گفتگو کے عنوان سے جس کی جانب اشارہ کر رہا ہے وہ درحقیقت ایک ڈبل اسٹینڈرڈ رویہ رہا ہے-
اس معنی میں کہ جنوبی کوریا، امریکہ کی مدد سے شمالی کوریا پر دباؤ ڈالنے کے مقابلے میں کچھ ترغیبی پیکج بھی مد نظر رکھے ہوئے ہے-
جنوبی کوریا اور امریکہ کے صدور نے اپنی گفتگو میں اس نکتے پر توجہ مرکوز رکھی کہ اگر شمالی کوریا نے اپنے ترک اسلحہ کے لئے ہونے والے چھ فریقی مذاکرات میں شرکت سے اجتناب کیا تو امریکہ اور جنوبی کوریا ماضی کی مانند شمالی کوریا پر اپنا دباؤ بڑھائیں گے-
اس کے ساتھ ہی جنوبی کوریا اور امریکہ نے تسلیم کیا ہے کہ جزیرہ نمائے کوریا میں پرامن اتحاد کی زمین ہموار کرنے کے لئے وہ باہمی صلاح و مشورہ تیز کریں گے-
جنوبی کوریا کا یہ رویہ اور امریکہ کے ساتھ اس کی یکجہتی درحقیقت دہری پالیسی ہی ہے-
کیونکہ ایک طرف سئول اور واشنگٹن شمالی کوریا پر دباؤ ڈالنے کے لئے اپنے تمام وسائل سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور دوسری جانب شمالی کوریا کے لئے ترغیبی پیکج بھی مد نظر رکھے ہوئے ہیں -
یہ صحیح ہے کہ چین چھ فریقی مذاکرات کا خالق اور دوہزار تین میں ان مذاکرات کا میزبان رہا ہے اور اخراجات کو کم کرنے کی غرض سے امور کو سفارتی راستے سے آگے بڑھانا چاہتا ہے لیکن یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ چھ فریقی مذاکرات میں شامل کسی بھی فریق اور ذمہ دار ملک نے اس سلسلے میں سیاسی بیان بازی یا اندازہ لگانے کی غلطی نہیں کی ہے-
البتہ چین ، اس سے پہلے بھی چھ فریقی مذاکرات کا حامی رہا ہے لیکن جزیرہ نمائے کوریا میں رونما ہونے والے بعض واقعات منجملہ امریکہ اور جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشققوں کا سلسلہ جاری رہنے سے چھ فریقی مذاکرات کا امکان ختم ہو جائے گا ارو چین اور شمالی کوریا بھی ان مذاکرات کا دفاع نہیں کر سکیں گے-
کیونکہ شمالی کوریا رائے عامہ، اداروں اور فیصلہ کرنے والے ممالک سے پوچھے گا کہ کیا جزیرہ نمائے کوریا میں ایک بار پھر مسلح امن قائم ہوسکتا ہے؟ درحقیقت جنوبی کوریا کا یہ رویہ اور بالخصوص واشنگٹن اور سئول کا باہمی تعاون اس بات کا باعث بنا ہے کہ چین کم محرکات کے ساتھ سامنے آئے-
کیونکہ امریکہ کی زیادہ طلبی اور اس کی دشمنانہ پالیسیاں جاری رہنے کے باعث شمالی کوریا کی جانب سے چھ فریقی مذاکرات کی میز ترک کرنے کے بعد چین نے شروع میں ہی ممالک کو صبر و تحمل سے کام لینے اور نرمی کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دی-
طے یہ تھا کہ شمالی کوریا تیرہ فروری دوہزار سات کے معاہدے کے مطابق ملنے والی مراعات کے عوض ترک اسلحہ پروگرام اپنے ایجنڈے میں شامل کرے گا لیکن اب پیونگ پوچھ رہا ہے کہ مشترکہ اقدام ، یکطرفہ اقدام اٹھانے میں کیوں تبدیل ہوگیا ہے اور شمالی کوریا مزید مراعات دینے کے لئے آگےکیوں بڑھے-
یہ مسائل چین کی جانب سے شمالی کوریا کے دفاعی موقف کو مضبوط کرنے کے ساتھ ہی اس بات کا باعث بنے ہیں کہ بیجنگ شمالی کوریا کے دفاع یا جزیرہ نمائے کوریا میں ایٹمی ترک اسلحہ کے سلسلے میں جدیدتر حالات سے منطبق مزید سنجیدہ پالیسی اختیار کرے-
چین درحقیقت ایک غیر جانبدارانہ موقف پر ڈٹا ہوا ہے اور اس کا خیال ہے کہ اگر چھ فریقی مذاکرات کا از سر نوآغاز شمالی کوریا کو راضی کرنے پر منتج ہو تو دوسرے فریق ، یکے بعد دیگرے متعدد فوجی مشقیں کر کے جزیرہ نمائے کوریا کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا پروگرام اپنے ایجنڈے میں کیوں رکھے ہوئے ہیں -