Oct ۲۷, ۲۰۱۵ ۱۶:۳۸ Asia/Tehran
  • ایران میں انسانی حقوق کے حوالے سے احمد شہید کے تکراری دعوے
    ایران میں انسانی حقوق کے حوالے سے احمد شہید کے تکراری دعوے

ایران کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں انسانی حقوق کے بارے میں ہونے والی تنقیدوں کے سلسلے میں ایران کے جواب دہ ہونے کو سراہا لیکن یہ بھی کہا کہ ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں تشویشیں بدستور باقی ہیں-

ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں احمد شہید کی یہ نویں رپورٹ شمار ہوتی ہے کہ جو پیر کو شائع ہوئی ہے-احمد شہید نے اپنی اس رپورٹ میں ماضی کی طرح ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں کچھ بے بنیاد دعوے کئے ہیں جن میں انھوں نے ایران میں سزائے موت، خواتین کو ایذا رسانی ، صحافیوں اور سیاسی مخالفین کی سرکوبی کا ذکر کیا ہے ۔


احمد شہید نے واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جیسن رضائیان کہ جنھیں رواں مہینے کے شروع میں جاسوسی کے الزام میں عدالت میں پیش کیا گیا تھا، کے بارے میں خبردار کیا ہے- احمد شہید کہ جن کی نظر میں خاندان کے سرپرست کو نوکری دینا ترجیحات میں ہے ، کو بھی تشویش ناک موضوعات میں قرار دیا گیا ہے-


احمد شہید نے اپنی اس رپورٹ میں درحقیقت ایک سوچی سمجھی روش اور رویے کے تحت بزعم خود یہ کوشش کی ہے کہ انسانی حقوق کے سلسلے میں ایران کے تعاون کی مثبت تصویر پیش کریں یہاں تک کہ انھوں نے کھل کر کہا ہے کہ دوہزارگیارہ میں جب سے وہ اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں اس وقت سے ایران تنقیدوں کا بہت بہتر اور کافی جواب دے رہا ہے- احمد شہید نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ وہ ایران کی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں کے ساتھ تعاون کے لئے زیادہ رجحان دیکھ رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے کچھ نام نہاد تشویش ناک علامتوں کی بھی بات کی ہے- انھوں نے دعوی کیا کہ بعض مسائل نہ صرف بہتر نہیں ہوئے ہیں بلکہ بدتر بھی ہوئے ہیں- احمد شہید نے اپنی رپورٹ میں اب جو نیا شوشہ چھوڑا ہے وہ ایران میں سزائےموت کا ہے-


انھوں نے اس سلسلے میں اپنی رپورٹ میں کچھ اعداد و شمار کی جانب بھی اشارہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ رواں سال کے آغاز سے اب تک ایران نے تقریبا آٹھ سو افراد کو سزائے موت دی ہے- یہ اعداد و شمار دوہزارچودہ میں سزائے موت پانے والے سات سو افراد کی نسبت زیادہ رہی ہے اور توقع ہے کہ رواں سال میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی تجاوز کر جائے- یہ رپورٹ بھی اسی دعوے کی کڑی ہے جو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے ایران میں بقول ان کے سزائے موت کے عمل میں اضافے کے سلسلے میں پیش کی ہے لیکن اس میں عدالتی فیصلوں کے دلائل اور ضرورتوں کی جانب کوئی اشارہ کئے بغیر ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے-


بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ویانا کے جامع مشترکہ ایکشن پلان کے بعد کہ جس پر جولائی کے مہینے میں ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان دستخط ہوئے اور اس کی بنیاد پر امریکہ اور یورپی حکومتیں ایران کے خلاف پابندیاں اٹھانے کی پابند ہوئیں، ایران پر دباؤ ڈالنے کے لئے خطرناک کھیل شروع ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ کوشش بھی ہو رہی ہے کہ عالمی برادری کے سامنے انسانی حقوق کے سلسلے میں ایران کی شبیہ خراب کر کے پیش کی جائے - یہ اقدامات بعض حکومتوں اور سیاسی حلقوں کی جانب سے مختلف ممالک کے سیاسی و اقتصادی وفود کے دورہ ایران، اور ان کی تہران کے ساتھ ہمہ گیر تعلقات بحال کرنے کی خواہش اورعلاقے میں امن و استحکام کے قیام میں ایران کے تعمیری کردار پر تاکید پر ردعمل ہوسکتے ہیں-


یہ اتفاقی مسئلہ نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر نے اسی پہلو سے آئندہ پابندیوں کی منسوخی کے بعد اقتصادی صورت حال میں بہتری کے امکان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی سمجھوتہ انسانی حقوق کے سلسلے میں ایک موقع فراہم کرے گا لیکن دباؤ جاری رکھنا چاہئے تاکہ ملک بہتر اقدام کرے- احمد شہید کی نئی رپورٹ کے سلسلے میں بعض حلقوں کا مطالبہ ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی راہ میں مظلوموں کا رنج و غم فراموش نہ کریں-


امریکہ کے گیٹس اسٹون نامی انسٹی ٹیوٹ نے اس سلسلے میں اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایسے عالم میں جب ممالک ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کے بعد اس ملک کو تنہائی سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی جمہوریہ ایران میں بنیادی تبدیلی آئی ہے ؟ ان حلقوں اور بعض مغربی حکومتوں کی نظر میں ایران کی جانب سے اب بھی مظلوم قوموں کے حقوق کی حمایت کئے جانے اور اس کے رہنماؤں کی جانب سے امریکہ، اسرائیل اور مغرب کی جارحانہ پالیسیوں کی مذمت کئے جانے سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا ملک جس کے بارے میں وہ دعوی کر رہے ہیں کہ وہ علاقے کی سیکورٹی کے لئے خطرہ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے ، عالمی تعمیری اشتراک عمل کی راہ پر گامزن ہے-

ٹیگس