میانمار کے انتخابات اور مسلمانوں کی تشویش
میانمار میں جیسے جیسے پارلیمانی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے اس ملک کی ایک بڑی اقلیت یعنی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف دائرہ تنگ تر ہوتا جا رہا ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب میانمار کے صدر جنرل سین تھین نے ملک میں استحکام کی خاطر ان انتخابات کے نتیجے کو تسلیم کرنے پر تاکید کی ہے۔ سین تھین نے کہا ہے کہ میانمار کی حکومت اور فوج انتخابات کے نتیجے کو تسلیم کرے گی۔ ان بیانات کے معنی یہ ہیں کہ یہ انتخابات بڑے سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ منعقد کئے جا رہے ہیں اور ان میں صرف انہی سیاسی جماعتوں کو حصہ لینے کا حق دیا گیا ہے جو نیپیداو (Naypyidaw) حکومت کی پالیسیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کرکام کریں گی۔
دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ سین تھین نے یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ میانمار کی حکومت استحکام اور امن کے قیام کے لئے اپنے مخالفین کے ساتھ بھی تعاون کر رہی ہے۔ ان بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیاست کے پس پردہ کچھ سودے بازی ہو چکی ہے اور میانمار کی بظاہر غیر فوجی حکومت نے اپنی سب سے بڑی مخالف جماعت یعنی محترمہ آنگ سان سوچی کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (The National League for Democracy) کے ساتھ اپنی مرضی کا معاملہ کر لیا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان ہزاروں مسلمانوں کو کیا مقام حاصل ہے جو نہ تو انتخابات میں امیدوارکے طور پر کھڑے ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ان کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے؟ اس سے قبل میانمار کے صدر اور دوسرے حکام انتخابات کے سلسلے میں اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ انتخابات شفاف اور آزاد ہوں اور ان میں تمام جماعتوں اور گروہوں کو شرکت کا حق حاصل ہوگا۔ لیکن مسلمانوں کو ، کہ جو ایک بڑی اقلیت شمار ہوتے ہیں، ان انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا جا رہا ہے۔ جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ایسے ہزاروں مسلمانوں کے ساتھ مسلسل امتیازی رویہ اختیار کیا جا رہا ہے جو اپنے تقدیر کے سلسلے میں موثر واقع ہوسکتے ہیں۔
انسانی حقوق کے مدعی یورپ خصوصا امریکہ اور بہت سے دوسرے ممالک سے یہ سوال پوچھا جانا چاہئے کہ کیا میانمار میں کسی کا حق پامال نہیں ہوا ہے؟ کیا اس ملک میں جمہوریت کی پابندی کی جاتی ہے؟ کیا سیاسی اصلاحات کے مرحلے میں داخل ہونے والے میانمار میں ہزاروں مسلمانوں کے مسلمہ حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے؟ اور کیا ہزاروں مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کی بنا پر میانمار کے بظاہر غیر فوجی حکمرانوں کی مذمت نہیں کی جانی چاہئے؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میانمار کے مسلمانوں کو انتخابات کے انعقاد کے بعد رونما ہونے والے واقعات پر تشویش ہوگی کیونکہ میانمار کے پانچ فیصد مسلمانوں کو ایک انتہاپسند راہب کے تشدد کا شکار نہیں ہونا چاہئے کہ جو مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ اور ان کے لئے ایک بڑے خطرے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ میانمار کا انتہا پسند راہب ویراتو پس پردہ اس ملک کے انتہا پسندوں اور فوجی جرنیلوں کی مدد کر رہا ہے اور اس طرح اس نے ہزاروں مسلمانوں کی محرومیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
بہرحال اس سلسلے میں جس چیز سے انسان کو دکھ پہنچتاہے اس ملک کی اپوزیشن کی رہنما آنگ سان سوچی کا رویہ ہے۔ دنیا کے آزاد سیاسی اور صحافتی حلقے آنگ سان سوچی سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی حکومت کا ساتھ کیوں دے رہی ہیں؟ آنگ سان سوچی کو خود بھی عقیدے کے اظہار کے خلاف طاقت استعمال کئے جانے جیسے مسئلے کا بیس برس تک سامنا کرنا پڑا ہے اور کیا اب وقت نہیں آ گیا ہے کہ وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ میانمار میں مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کو دیکھیں اور اس ملک کے حکام کو اس کی طرف متوجہ کریں؟