امریکہ میں مسلمان دھمکیوں اور تشدد کا شکار
فرانس میں حالیہ دہشتگردانہ حملوں کے بعد امریکہ میں مسلمانوں اور ان کے مقدسات کے خلاف دھمکیاں اور حملے کافی بڑھ گئے ہیں۔
امریکہ میں مسلمان رہنماؤں نے اطلاع دی ہے کہ نبراسکا، فلوریڈا، کینٹاکی، ویرجینیا، ٹنیسی، اوہایو اور نیویارک میں مسلمانوں کے خلاف دھمکیوں اور مساجد پر حملے ہوئے ہیں۔ اسلام و امریکہ تعلقات کونسل کے ترجمان ابراہیم ہوپر نے واشنگٹن میں اس سلسلےمیں بتایا کہ امریکہ میں مسلمانوں کا مستقبل تاریک ہے اور یہ دیکھا جارہا ہے کہ اسلام مخالف بیانات روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں۔ امریکہ میں مسلمانوں کے حقوق کےحامی گروہوں کا کہنا ہے کہ پیرس حملوں کے بعد امریکہ میں اسلام مخالف اقدامات کی توقع کی جارہی تھی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد پھیل جائے۔
امریکہ میں انسانی حقوق کے دفاع کے بلند بانگ دعووں کے باوجود امریکہ میں ایک مرتبہ پھر نسل پرستی کی لہر چل پڑی ہے۔ یہ نئی لہر پیرس میں ہونے والے حالیہ حملوں کےبہانے شروع ہوئی ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ انسانی حقوق کے تحفظ کے دعوے کئے ہیں لیکن اس وقت امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی مصیبت اسلام کی مخالفت اور اسلامو فوبیا بنا ہوا ہے۔ اس مصیبت میں مہاجر مسلمان اور خود مقامی مسلمان برابر کے شریک ہیں۔ البتہ اسلامو فوبیا اور اسلام مخالفت میں شدت آنا صرف امریکہ سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کے ہمسایہ ملک کینڈا میں بھی آنٹاریو میں ایک مسجد کو نذر آتش کردیا گیا تھا۔
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کینڈا جسے مذہبی رواداری کاحامل اور مذاہب نیز نسلوں کو مساوی نظر سے دیکھنے والا ملک سمجھا جاتا تھا وہ بھی اسلاموفوبیا میں گرفتار دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ میں نسل پرستی، مہاجرین کی مخالفت اور اسلامو فوبیا کی طولانی تاریخ ہے اسی وجہ سے اگر امریکہ میں اس طرح کے واقعات ہوجائیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔دوہزار ایک میں گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد امریکہ میں اسلام مخالفت اور اسلامی مراکز نیز مسلمانوں پر حملوں میں تیزی آگئی۔ اس میں سب سے زیادہ شرمناک،غیر قانونی اور غیر انسانی رویہ نیویارک کی پولیس نے اپنایا تھا۔ قابل ذکرہے کہ نیویارک کی پولیس مسلمانوں کو ستانے اور ایذائیں پہنچانے میں خاصے تجربے کی حامل ہے۔
نیویارک کی پولیس نے مسلمانوں کی ایذا رسانی کے اقدامات ان کےخلاف جاسوسی کے منصوبے کے تحت شروع کئےتھے جس پر کافی تنازعہ کھڑا ہوا تھا۔ دوہزار دو سے نیویارک کی پولیس نے مختلف طریقوں سے مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنا شروع کیا تھا۔ دوہزار گیارہ میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ نیویارک کی پولیس مسلمانوں کی جاسوسی کررہی ہے جو ہر طرح سے قانون کی پیروی کرتے ہیں اور انہوں نے کسی بھی طرح کے جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے۔ مسلمانوں نے نیویارک پولیس کے اس اقدام پر احتجاج کرتے ہوئے فڈرل عدالت میں پولیس کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ مسلمانوں نے امریکی پولیس سے تاوان ادا کرنے کا بھی دعوی کیا۔ مسلمانوں کے وکلاء نے اپنے مقدمے میں مسلمانوں کے خلاف نیویارک پولیس کے رویئے کو آئین کے ضمیمہ اول کے خلاف قرار دیا جس میں آزادی بیان، آزادی عقیدہ اور اجتماع کرنے کے حق کی ضمانت دی گئی ہے۔
قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کے ذرایع ابلاغ سے اسلام ومسلمین کے خلاف وسیع پروپگینڈوں کے باوجود سروے رپورٹوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں حالیہ برسوں میں اسلام کی طرف رجحان میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔