فارن پالیسی: سعودی عرب ستر کے عشرے سے دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے، پیرس کے دھماکوں میں ریاض براہ راست ملوث ہے
امریکی جریدے فارن پالیسی نے اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ سعودی عرب وھابیت کی ترویج کر رہا ہے، پیرس کے دہشت گرادانہ واقعات میں ریاض کو قصور وار ٹہرایا ہے اور سعودی عرب کے سلسلے میں امریکہ کی تساہلی برتنے نیز ایران کے ساتھ کشیدگی کو بڑھاوا دینے کی پالیسی پر کڑی تنقید کی ہے۔
فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جریدے فارن پالیسی نے جمعے کے روز اپنی ایک رپورٹ میں داعش جیسے تشدد پسند گروہوں کی تشکیل میں سعودی عرب کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب سن ستر کے عشرے سے اپنے پٹرو ڈالر کی مدد سے دہشت گرد گروہوں کو پروان چڑھا رہا ہے۔
پیرس میں دہشت گردانہ واقعات کے بعد مغربی ممالک اس سلسلے میں صلاح و مشورے کررہے ہیں۔ فارن پالیسی کے مطابق مغربی ممالک نے دہشت گردوں پر مقدمہ چلانے کا بھی مطالبہ کیا ہے جبکہ دہشت گردوں کے خلاف ڈرون حملوں یا زمینی کاروائی کے سلسلے میں گفتگو کی جارہی ہے۔ بہرحال اس وقت فارن پالیسی کے نقطہ نگاہ میں ایک موضوع جو خاصی اہمیت رکھتا ہے وہ ان مسائل کی تہہ کو پہنچنا ہے کہ جن کی بناپر مشرق وسطی کے ممالک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔
اس امریکی جریدے ک نے سعودی عرب کی جانب سے وھابیت کی ترویج اور فروغ کو ان جھڑپوں کی بنیادی وجہ قرار دیا ہے۔ فارن پالیسی نے لکھا ہے کہ سعودی عرب انیس و ستر کے عشرے سے اپنی انتہاپسندانہ آیڈیا لوجی کو تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعے پوری دنیا میں برامد کررہا ہے۔
فارن پالیسی نے اس رپورٹ میں ستر اور اسی کے عشروں کے درمیانی عرصے میں پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو رقوم کی فراہمی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ جس کا مقصد سویت یونین کے خلاف چلنے والی تحریکوں کی حمایت کرنا تھا، فارن پالیسی کے مطابق یہی امر آگے چل کر طالبان گروہ کی تشکیل پر منتج ہوا۔
سعودی عرب نے نوے کے عشرے میں بالکان کے علاقے میں وھابیت کی ترویج اور فروغ کے مقصد سے کافی وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔
اس رپورٹ میں پیرس میں گزشتہ ہفتے کے دہشت گردی کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آیا ہے کہ ایسالگتا ہے کہ سعودی عرب اور پیرس میں ہونے والے بم دھماکوں میں خاصا ربط پایا جاتا ہے کہ جس سے انکار کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔
فارن پالیسی کے مطابق سازشیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق برسلز کے علاقے مولنبیک سے ہے، جو ستر کے عشرے کے دوران سعودی عرب اور خلیج فارس کے دیگر ملکوں میں وہابی مدارس کی مالی معاونت کرتے رہے ہیں۔
فارن پالیسی نے سوال اٹھایا ہے مغربی ممالک کیوں اور کس بنا پر سعودی عرب کے قرون وسطی کی طرز کے تشدد پسندانہ تشہیراتی اقدامات کو نظر کر رہے ہیں۔
فارن پالیسی نے اس سلسلے میں عالمی منڈیوں میں ایران کے تیل کی برامدات پر پابندیوں کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس سلسلے میں مغربی ممالک کا سیدھا سا جواب ہے کہ ہم نے سعودی عرب سے تیل کی خریداری کو ترجیح دی اور شیعہ ملک ایران کی برامدات کو روک دیا۔ فارن پالیسی کے مطابق تیل کی مہنگے داموں خریداری اور اس کے مقابلے میں سعودی عرب کی کھوکلی تشہیرات کو کنٹرول کرنے کا معاملہ زیادہ بہتر نتائیج کا حامل ہوسکتا ہے۔