پاکستان میں داعش کی موجودگی کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ کا دعوی
-
پاکستان میں داعش کی موجودگی کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ کا دعوی
امریکہ سے شائع ہونے والے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دعوی کیا ہے کہ تکفیری صیہونی گروہ داعش پوری سنجیدگی کے ساتھ پاکستان میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس اخبار نے انٹرنیٹ پر ایک مقالے میں اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، کہ پاکستانی خاتون تاشفین ملک امریکی ریاست کیلی فورنیا میں واقع شہر برنارڈینو میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعے میں ملوث تھی ، دعوی کیا ہے کہ یہ گروہ پاکستان میں داخل ہو چکا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے دعوےکے مطابق تاشفین ملک سنہ دو ہزار سات سے دو ہزار تیرہ تک فارمیسی کی تعلیم حاصل کرنے کے مقصد سے پاکستان کے شہر ملتان میں زندگی گزارتی رہی ہے۔
دریں اثناء پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل نے کہا ہے کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں حالیہ حملے کی وجہ سے یورپی خصوصا امریکی ذرائع ابلاغ کو اسلامو فوبیا میں شدت پیدا کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ان سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس حملے میں پاکستانی نژاد افراد ملوث تھے لیکن یورپی ذرائع ابلاغ اس پہلو کی جانب بالکل توجہ نہیں دے رہے ہیں کہ یہ افراد اس دہشت گرد گروہ کی جانب رجحان رکھتے تھے جس کو یورپی ممالک ہی وجود میں لائے تھے، ان ممالک نے ہی اس کو مضبوط کیا اور اس کا دائرہ پھیلایا۔
دہشت گرد گروہ داعش نے دراصل القاعدہ سمیت دوسرے دہشت گرد گروہوں سے ہی جنم لیا ہے اور ان گروہوں کو وجود میں لانے کے سلسلے میں عرب اور یورپی ممالک نے کردار ادا کیا اور اب بھی انہی ممالک کی حمایتوں کی وجہ سے داعش ایک بین الاقوامی خطرے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ تیل کے ذخائر تک رسائی کی وجہ سے یہ گروہ ایک دولتمند ترین دہشت گرد گروہ بن چکا ہے اور تیل کے ذخائر تک اس کی رسائی یورپ اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کے باعث ہی ہوئی ہے۔ اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ دہشت گرد گروہ داعش سے تیل خرید کر اس کو پھلنے پھولنے اور عالمی خطرہ بننے کا موقع فراہم کرنے والی طاقتوں کا ذکر واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبارات اور جریدوں میں کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟ لیکن اس کے برخلاف یہ اخبارات و جرائد ہر انتہا پسند فرد کا تعلق مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور پھر دنیا جہاں کی مشکلات کا ذمےدار مسلمانوں کو قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی نکتے پر توجہ دیتے ہوئے پاکستان کے وزیر داخلہ چودھری نثارعلی نے امریکی جرائد کے پاکستان مخالف الزامات کے جواب میں کہا ہے کہ دہشت گردانہ حملوں میں مسلمانوں کو ملوث قرار دینے کا مقصد یورپ میں اسلامو فوبیا کا ماحول پیدا کرنا ہے اورانتہا پسند جو اقدام بھی انجام دیتے ہیں اس کا الزام اسلام اور مسلمانوں پر لگانے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ اسلام دین امن و رحمت ہے۔
چودھری نثار نے تاشفین ملک کے بارے میں کہا ہے کہ وہ پچیس سال قبل اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان سے سعودی عرب چلی گئی تھی اور اب بھی اس کے خاندان کے بعض افراد برطانیہ میں مقیم ہیں۔ واضح رہے کہ تاشفین ملک کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں فائرنگ کے واقعے میں ملوث تھی۔