مسلمان دہشت گردی کا زیادہ شکار ہوئے ہیں: باراک اوباما
-
مسلمان دہشت گردی کا زیادہ شکار ہوئے ہیں: باراک اوباما
امریکہ میں اسلام مخالف اقدامات میں شدت پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس ملک کے صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ داعش کی دہشت گردی کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچا ہے۔
باراک اوباما نے پہلی بار اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ دہشت گرد گروہ داعش کے حملوں میں مارے جانے والوں کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ باراک اوباما نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف جنگ اور مقابلے کے لئے اسلامی معاشروں سے مدد لینے پر تاکید کی اور کہا کہ داعش کے خلاف جنگ امریکہ کی اسلام کے خلاف جنگ نہیں ہے۔
امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں واقع شہر برنارڈینو میں چودہ افراد کی ہلاکت پر منتج ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد امریکہ میں اسلام مخالف اقدامات کا ایک نیا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔امریکہ کے بعض ذرائع ابلاغ ، گروہوں اور سیاسی شخصیات نے ایک بار پھر مسلمانوں پر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردوں کے مترادف قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہوں نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی مسلمانوں کے خلاف شدید اقدامات انجام دیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب حالیہ دو عشروں کے دوران دنیا کے کسی بھی خطے میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعے کے بعد دنیا بھر کے مسلمان علماء نے بے گناہوں کے قتل عام کی مذمت کی ہے۔
گزشتہ بیس برسوں کے دوران دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دہشت گرد مغربی ملکوں کے لئے اتنا خطرہ نہیں ہیں جس قدر نقصان انہوں نے مسلمانوں کو پہنچایا ہے۔ طالبان، القاعدہ، بوکوحرام، الشباب اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں نے اسلامی ممالک میں جس قدر مسمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے ان کی تعداد یورپ میں دہشت گردانہ حملوں میں مارے جانے والوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب مشرق وسطی اور افریقہ میں مسلمان صرف تکفیری دہشت گردوں کے براہ راست حملوں کی بھینٹ ہی نہیں چڑھے ہیں بلکہ انہوں نے اپنی جان، مال اور عزت و آبرو سے یورپ کے دہشت گردی مخالف اقدامات کی قیمت بھی چکائی ہے۔ ان اقدامات میں دو اسلامی ملکوں عراق اور افغانستان پر لشکر کشی اور پاکستان، یمن، صومالیہ اور لیبیا جیسے ممالک پر امریکہ کے ڈرون حملے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یورپی ممالک کے کئی ملین مسلمان شہریوں اور ان ممالک میں مقیم مسلمانوں کی زندگی آئے دن سخت سے سخت ہوتی جا رہی ہے۔ اس لئے امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اعتراف کیا ہے کہ داعش کی دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار مسلمان ہوئے ہیں۔
اس کے باوجود امریکی صدر کے یہ بیانات دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی حکمت عملی میں کسی بنیادی تبدیلی کی علامت نہیں ہیں۔ بلکہ ان بیانات کا اصل مقصد یورپی ممالک میں سماجی استحکام کے تحفظ سے عبارت ہے۔
یورپی حکام کو اس بات پر تشویش لاحق ہے کہ اسلام مخالف انتہا پسندگروہوں کی جانب سے یورپی مسلمانوں کے خلاف بیانات دینے اور ان کو جسمانی طور پر نقصان پہنچانے کی صورت میں ان ممالک میں بدامنی اور عدم استحکام میں شدت پیدا ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر رہنما اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ دہشت گردی کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اگرچہ یہ موقف اسلام کے مخالفین کے راستے کی ایک رکاوٹ شمار ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود یورپی ممالک خصوصا امریکہ کی کارکردگی چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے دنیا میں اسلامو فوبیا اور اسلام کی مخالفت پر منتج ہوئی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت سے مقابلے کے لئے ہر چیز سے زیادہ تمام مذاہب، نسلوں اور ثقافتوں کے سنجیدہ عزم و ارادے کی ضرورت ہے۔