ڈونلڈ ٹرمپ کے اسلام مخالف بیانات کے منفی نتائج
-
ڈونلڈ ٹرمپ کے اسلام مخالف بیانات کے منفی نتائج
امریکا میں ری پبلکن پارٹی کے ممکنہ مضبوط صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی اسلام دشمنی پر مبنی تجویز کے خلاف امریکہ کے اندر بھی اور امریکہ سے باہر بھی شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس سے لے کر اقوام متحدہ تک نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کی مذمت کی ہے اور ان بیانات کو نفرت پھیلانے پر مبنی اقدام سے تعبیر کیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاست جنوبی کیرولینا میں انتخابی مہم کے دوران کہا کہ امریکہ کو اپنی سرزمین میں مسلمانوں کا داخلہ بند کر دینا چاہئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دعوی بھی کیا کہ تمام مسلمان امریکہ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں اور ان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی جانی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی کانگریس بھی بعض ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں بغیر ویزے کے داخلے کے عمل میں تبدیلیاں لانے کے لئےکوشاں ہے۔ اگر یہ بل قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو حالیہ پانچ برسوں کے دوران چار اسلامی ممالک ایران ، عراق، شام اور سوڈان کا سفر کرنے والے افراد امریکہ میں بغیر ویزے کے داخل ہونے کی سہولت سے محروم ہو جائیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات اور کانگریس کا بل امریکہ میں اسلام دشمنی پر مبنی جدید ترین اقدامات شمار ہوتے ہیں۔ یہ اقدامات بظاہر پیرس اور کیلی فورنیا میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے رد عمل میں کئے گئے ہیں۔ اسلام کے ساتھ دشمنی رکھنے والے اس بات کے مدعی ہیں کہ دہشت گردانہ حملوں میں مسلمان ملوث ہیں اور دہشت گردانہ میں ملوث افراد اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر عام شہریوں کا قتل عام کرتے ہیں۔
یہ بے بنیاد دعوی ایسی حالت میں کیا جا رہا ہے کہ جب مسلمان علما، دانشور اور مسلمانوں کے نمائندے بارہا دہشت گردی کی مذمت کر چکے ہیں اور صراحت کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ القاعدہ، داعش اور بوکوحرام جیسے گروہ کسی بھی طور پر مسلمانوں کےنمائندہ نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ دو عشروں کے دوران عیسائیوں سے زیادہ مسلمان اور یورپی ممالک سے زیادہ اسلامی ممالک دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ اگر داعش کے ہاتھوں پیرس یا سین برنارڈینو میں دسیوں افراد ہلاک ہوئے ہیں تو اسی گروہ کے ہاتھوں عراق اور شام میں کئی گنا زیادہ مسلمان انتہائی بدترین حالت میں موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔
دوسری جانب امریکہ میں حالیہ برسوں کے دوران سیکڑوں افراد اندھا دھند قتل عام یا دہشت گردانہ اقدامات کی بناء پر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مثلا اگر سین برنارڈینو میں پاکستانی نژاد میاں بیوی کے حملے میں چودہ افراد ہلاک ہوئے ہیں تو ایک غیر مسلم نے ریاست کنیکٹیکٹ (Connecticut) میں ایک اسکول پر حملہ کر کے پچیس بچوں اور ایک استاد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ چارلسٹن شہر میں سیاہ فاموں کے ایک چرچ پر حملے میں نو افراد ہلاک ہوئے ۔ یہ حملہ ایک عیسائی نے کیا تھا۔
یورپ کی مشکل بھی مشرق وسطی سے اس براعظم میں داخل ہونے والے مسلمانوں سے عبارت نہیں ہے بلکہ یورپ کی مشکل وہ نوجوان ہیں جو یورپ میں ہی پیدا ہوئے ہیں اور اب داعش میں شامل ہو چکے ہیں۔ ان میں سے بعض نوجوان تو داعش میں شامل ہونے سے قبل عیسائی مذہب سےتعلق رکھتے تھے۔ آخر کار یہ کہ امریکہ کی تاریخ میں دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپانی نژاد امریکیوں کی اجتماعی گرفتاریوں اور سرد جنگ کے دوران مکیرتھزم (McCarthyism) جیسے گھناؤنے تجربات نظر آتے ہیں۔
امریکہ میں انتہا پسند اور اسلام دشمن گروہ سیکورٹی کے بہانے ایک بار پھر اس ملک میں دینی، نسلی اور فرقہ وارانہ جنگیں بھڑکانے کے درپے ہیں۔ امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی سے ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ تجویز پر عملدرآمد ہونے کی صورت میں یہ ملک سماجی چپقلشوں اور فرقہ وارانہ جنگوں کی دلدل میں پھنس جائے گا اور اس سے داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی آرزو پوری ہو جائے گی۔