Dec ۲۲, ۲۰۱۵ ۱۶:۱۴ Asia/Tehran
  • نائیجیریا کی تحریک اسلامی کے رہنما پر مقدمہ چلائے جانے کا امکان
    نائیجیریا کی تحریک اسلامی کے رہنما پر مقدمہ چلائے جانے کا امکان

نائیجیریا کے صحافتی ذرائع نے اس ملک کی تحریک اسلامی کے سربراہ شیخ ابراہیم الزکرکی پر مقدمہ چلائے جانے کے امکان کی خبر دی ہے- شمالی نائیجیریا کے صوبے کادونا کے گورنر ناصر الرئوفی نے کہا ہے کہ شیخ الزکزکی جو گذشتہ ہفتے شہر زاریا میں گرفتار کئے گئے تھے، ان پر مقدمہ چلایا جائے گا-

نائیجیریا کے صحافتی ذرائع اس ملک کی تحریک اسلامی کے سربراہ شیخ ابراہیم الزکرکی پر مقدمہ چلائے جانے کے امکان کی خبر دی ہے- شمالی نائیجیریا کے صوبے کادونا کے گورنر ناصر الرئوفی نے کہا ہے کہ شیخ الزکزکی جو گذشتہ ہفتے شہر زاریا میں گرفتار کئے گئے تھے، ان پر مقدمہ چلایا جائے گا-

اس صوبائی عہدیدار نے تاکید کے ساتھ کہا کہ نائیجیریا کی صوبائی حکومت شیخ الزکزکی پر مقدمہ چلانا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں آئین اور نائیجیریا کے حکام فیصلہ کریں گے-

صوبہ کادونا کے شمال میں واقع شہر زاریا میں شیخ ابراہیم الزکزکی کی رہائش گاہ پر نائیجیریا کی فوج کے حالیہ حملے کے بعد نائیجیریا کے مسلمانوں کی ایک تعداد کو جو تحریک اسلامی سے وابستہ حسینیہ بقیۃ اللہ میں عزاداری کر رہی تھی، شہید اور شیخ الزکزکی کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا، گذشتہ روز نائیجیریا کی فوج نے حسینیہ بقیۃ اللہ کی عمارت کو پوری طرح ڈھا دیا-

صوبہ کادونا کے گورنر نے تاکید کے ساتھ کہا کہ تحریک اسلامی کے رہنما شیخ الزکزکی کی رہائش گاہ پر حملے کی تحقیقات کے لئے ایک عدالتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے-

یہ ایسے عالم میں ہے کہ نائیجیریا کی تحریک اسلامی نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ وہ صوبائی انسپیکٹروں کی تحقیقات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے ہیں - تحریک اسلامی کا خیال ہے کہ موجودہ تحقیقاتی کمیٹی کے انسپیکٹر اس واقعے کو نائیجریا کے مسلمان معاشرے کی زبان سے نہیں سننا چاہتے بلکہ وہ صرف اس ملک کے فوجی حکام کے بیانات پر اکتفا کرتے ہیں-

اس ملک کے فوجی حکام کا دعوی ہے کہ مسلمان ، فوج کے کمانڈر کو قتل کرنا چاہتا تھے یہ ایسا الزام ہے جسے مسلمان سختی سے مسترد کرتے ہیں-

شیخ الزکزکی پر مقدمہ چلائے جانے کا موضوع ایسے عالم میں سامنے آرہا ہے کہ انھوں نے اس سے قبل اس ملک کے مسلمانوں کے خلاف پیدا ہونے والے ماحول کے بارے میں خبردار کیا تھا-

اس وقت نائیجیریا کی فوج ایسے عالم میں مسلمانوں کے مد مقابل کھڑی ہے کہ بوکو حرام دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں اس ملک کے نہتے عوام کا قتل عام مسلسل جاری ہے-

ایسی حالت میں جب نائیجیریا کی فوج ہر طرح کی ٹریننگ اور اسلحے کے باوجود بوکو حرام کو ملک سے باہر نکالنے یا ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو پارہی ہے اس نے مسلمانوں کے خلاف اقدامات اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے-

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ مغربی ممالک اور صیہونی ، بوکوحرام کی حمایت کرتے ہیں- ان ماہرین کا خیال ہے کہ مسلمانوں پر الزام لگانا اور اس ملک کی تحریک اسلامی کے سربراہ کی گرفتاری پہلے سے طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے-

نائیجیریا میں بوکوحرام کی موجودگی گذشتہ کئی برسوں سے اس بات کا باعث بنی ہے کہ اس ملک کے حکام کی توجہ اس گروہ کے خلاف جنگ پر موکوز ہو کر رہ جائے اور اس چیز نے اس ملک کے ذخائر کی بربادی اور لوٹ کھسوٹ بالخصوص تیل کے ذخائر سامراجی ممالک کے اختیار میں جانے کا اچھا موقع فراہم کر دیا ہے- بلاشبہ بوکو حرام گروہ کے ختم ہونے اور اس ملک میں امن و استحکام پیدا ہونے کی صورت میں اس ملک میں سامراج کے لئے کوئی جگہ نہیں رہے گی-

اس بنا پر اس وقت جبکہ سیاسی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس ملک کے مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں اور ان کا مقابلہ کیا جا رہا ہے، نائیجیریا کی حکومت جب تک مجرموں کا قلع قمع کرنے کے بجائے ، دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کو قتل اور جیل میں ڈالتی رہے گی ، اس وقت تک سامراج اور دہشت گردی کے حامی ممالک کو اس ملک میں زیادہ عرصے تک موجود رہنے کا موقع ملتا رہے گا-

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ نائیجیریا میں ہونے والا قتل عام ، مسلمانوں بالخصوص شیعہ مسلمانوں کے قتل عام کے لئے بین الاقوامی دہشت گردی کا ایک حصہ ہے-

اسلام کا دائرہ بالخصوص افریقی ممالک میں پھیلنے کے باعث اس وقت وہابی دھڑوں کو دوسرے خوف و ہراس بھی لاحق ہوگئے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو اسلام کا دائرہ پھیلنے سے روکیں ، شیعوں کے قتل عام اور نائیجیریا کی تحریک اسلامی کے سربراہ کی گرفتاری کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے-

ٹیگس