Jan ۰۴, ۲۰۱۶ ۱۶:۲۱ Asia/Tehran
  • دہشت گردی کے حوالے سے افغان عوام کی تشویش

ایسے عالم میں جب افغانستان میں داعش دہشت گرد گروہ کی سرگرمیوں کے سلسلے میں تشویش بڑھ گئی ہے اس ملک کے صدر نے فوج اورسیکورٹی اہلکاروں کو داعش کی مزید سرکوبی کا حکم دیا ہے-

افغانستان کے پریس دفتر کے اعلان کے مطابق صدر محمد اشرف غنی نے اس موضوع کو کابل میں ننگرہار کے کچھ صوبائی حکام اور شخصیتوں سے ملاقات میں اٹھایا ہے-

افغانستان کے صدر نے اس ملاقات میں صوبہ ننگرہار کی سرکردہ شخصیتوں سے وعدہ کیا کہ وہ داعش دہشت گرد گروہ کی سرکوبی کے لئے ہر ممکن اقدام کریں گے-

اشرف غنی نے مزید کہا کہ افغانستان کے سیکورٹی اہلکار اور فوجی داعش کو ختم کرنے کے لئے مسلسل فوجی کارروائیاں کر رہے ہیں - صوبہ ننگرہار میں گذشتہ دو ہفتوں سے افغان فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں کچھ داعش دہشت گردوں سمیت دوسو مسلح مخالف مارے گئے ہیں-

گذشتہ مہینوں میں ایک دہشت گرد گروہ کے سامنے آنے سے جو خود کو داعش کہتا ہے ، افغانستان میں تشویش بڑھ گئی ہے- افغانستان کے بعض حکام نے اس گروہ کی سرگرمیوں کی تصدیق کرتے ہوئے اس کا سنجیدگی سے مقابلہ کرنے کی ضرورت پر تاکید کی ہے- کہا جا رہا ہے کہ صوبہ ننگرہار افغانستان میں داعش دہشت گردوں کے اڈے میں تبدیل ہو گیا ہے-

افغانستان میں داعش کے سامنے آنے کے بارے میں مختلف نظریات ہیں بعض کا خیال ہے کہ طالبان سے الگ ہونے والے افراد زیادہ انتہاپسند ہیں اور وہ ایک گروہ بنا کر خوف و وحشت کا ماحول بنا کر افغانستان کے بعض علاقوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں- بعض دیگر داعش کو افغانستان میں طالبان کی سرگرمیوں کا تسلسل سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ داعش نامی دہشت گرد گروہ کو افغانستان میں طالبان کے حامیوں اور اسے چلانے والوں نے بنایا ہے تاکہ اس ملک میں امن کے عمل میں ممکنہ طور پر طالبان کے شامل ہونے کے بعد ، داعش دہشت گرد گروہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے تاکہ اس کے حامیوں کے لئے افغان حکومت سے مزید مراعات حاصل کرنے کا امکان فراہم ہو سکے- اس کے باوجود ایسا نظر آتا ہے کہ داعش دہشت گرد گروہ کا سامنے آنا چاہے وہ کسی بھی عنوان سے ہو، افغانستان میں ایک ناقابل انکار حقیقت ہے جس نے خاص طور پر ننگرہار کے عوام کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے-

افغانستان میں بعض حلقے ہرچند دہشت گردوں کے مقابلے میں اس ملک کے سیکورٹی اہلکاروں اور فوج کی صلاحیتوں اور توانائی پر تاکید کرتے ہیں لیکن دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کے تسلسل کو سیکورٹی اور فوجی اداروں کے خراب اور کمزور مینجمنٹ کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ صحیح مینجمنٹ اور کمانڈ سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے- ہرچند یہ حلقے ، بیرونی حمایتوں کو بھی افغانستان میں انتہاپسند اور دہشت گرد گروہوں کے پھیلنے میں موثر سمجھتے ہیں-

بہر حال ننگرہار کی سرکردہ شخصیتوں کا دورہ کابل اور افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات سے اس صوبے کی سیکورٹی کی صورت حال پر ان کی گہری تشویش کا پتہ چلتا ہے اور یہ ملاقات افغانستان کے صدر کو ان کی حکومت کو درپیش سیکورٹی چیلنجوں اور مسائل سے زیادہ باخبر کر سکتی ہے -

اس بنا پر جیسا کہ اشرف غنی نے وعدہ کیا ہے افغانستان کے عوام بالخصوص وہ علاقے جنھیں انتہاپسندانہ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کا سامنا ہے توقع رکھتے ہیں کہ اس ملک کی فوج اور سیکورٹی ادارے اپنے علاقوں کی سیکورٹی کے تحفظ کے لئے تمام وسائل اور صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے تاکہ خاندانوں کو ہجرت پر مجبور نہ ہونا پڑا-

ٹیگس