Jan ۱۰, ۲۰۱۶ ۱۷:۴۵ Asia/Tehran
  • چار فریقی مذاکرات میں شمولیت کے لئے افغانستان کی آمادگی

چار فریقی امن مذاکرات کے انعقاد کے موقع پر افغانستان کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ کابل حکومت، ان مذاکرات میں شمولیت کے لئے مکمل آمادہ ہے۔

افغانستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان احمد شکیب مستغنی نے چار فریقی امن مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مذاکرات پیر کے روز پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلام آباد کے امن مذاکرات میں افغانستان، پاکستان، چین اور امریکہ کے اعلی حکام شرکت کریں گے۔ ان مذاکرات کے انعقاد کے بارے میں دسمبر میں پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے دورہ کابل میں مفاہمت ہوئی تھی۔

اسلام آباد کے چار فریقی امن مذاکرات میں طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے امن مذاکرات کے دوبارہ آغاز کے طریقہ کار کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔ طالبان اور حکومت کابل کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور، گذشتہ سال موسم گرما میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے قریب واقع شہر مری میں منعقد ہوا تھا مگر ایک ماہ کے اندر طالبان کے سابق سرغنہ ملا عمر کی اچانک موت کی خبر، مذاکرات کا عمل تعطل سے دوچار ہونے کا باعث بن گئی۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے چار فریقی امن مذاکرات، کہ جن کا مقصد امن روڈ میپ تیار کرنا ہے، ایسی حالت میں ہو رہے ہیں کہ طالبان گروہ نے بھی امن مذاکرات کے حوالے سے اپنی ٹیم کا اعلان کردیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ طالبان نے ملا اختر منصور مخالف تمام کمانڈروں اور شخصیات کو بھی اپنے گروہ سے نکال دیا ہے جس کی بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان کے امن مذاکرات کے دوبارہ آغاز کے لئے ماحول خاصا سازگار ہوگیا ہے۔

حکومت افغانستان کو اس بات کی توقع ہے کہ چار فریقی امن مذاکرات اور ان مذاکرات میں روڈ میپ کی تیاری، افغانستان کے امن مذاکرات کے لئے مناسب ضمانت فراہم کرے گی۔افغانستان کے امن مذاکرات میں چین کی شمولیت، ایک ایسا اہم اور قابل غور مسئلہ ہے، جو علاقائی و عالمی سطح پر امن مذاکرات کی حمایت کے لئے کابل حکومت کو پرامید بنا سکتا ہے اس لئے کہ افغانستان کی حکومت اور اس ملک کے سیاسی حلقے نیز ذرائع ابلاغ، امن مذاکرات کے عمل میں پاکستان اور امریکہ کے کردار پر کوئی خاص اعتماد نہیں کرتے۔

افغانستان کے سیاسی حلقے اور ذرائع ابلاغ، حکومت اسلام آباد پر افغانستان کی تبدیلیوں میں دورخی کردار ادا کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ امریکہ بھی افغانستان میں قیام امن میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتا اور وہ بھی بحران کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے کر افغانستان میں اپنی اور نیٹو کی فوجی موجودگی کا جواز پیش کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ البتہ اس بات کے پیش نظر کہ چین نے افغانستان میں کافی سرمایہ کاری کی ہے اور اسے، افغانستان سے قفقاز اور وسطی ایشیاء اور یہاں تک کہ چین کی سرحدوں تک دہشت گردوں کے پھیل جانے پر گہری تشویش لاحق ہے، وہ افغانستان میں قیام امن میں مدد کے لئے زیادہ عزم و ارادے کا حامل ہے۔

افغانستان میں قیام امن اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان پر بھی چین اور بین الاقوامی حلقوں کا کافی دباؤ ہے۔ پاکستان کی حکومت نے چین کے ساتھ چھیالیس ارب ڈالر کے سمجھوتے پر دستخط بھی کئے ہیں، جس پر عملدرآمد، افغانستان اور پاکستان میں قیام امن سے مشروط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پاکستان بھی افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے اپنی دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے تاہم افغان سیاسی حلقوں اور ذرائع ابلاغ کے مطابق اسلام آباد، افغانستان میں ایسے امن کا خواہاں ہے جو پاکستان کے مفادات کا بھی ضامن ہو۔

ٹیگس