Jan ۲۸, ۲۰۱۶ ۱۷:۰۵ Asia/Tehran
  • شمالی کوریا کے خلاف قرارداد جاری کرنے سے متعلق  چین کا موقف

چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے شمالی کوریا کے خلاف قرارداد جاری کئے جانے سے اپنے ملک کے اتفاق کی خبر دی ہے۔

چین کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل کو ہائیڈروجن بم کے تجربے کی بنا پر شمالی کوریا کے خلاف قرارداد جاری کرنی چاہئے۔

شمالی کوریا نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھانے کے مقصد سے اپنی ایٹمی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے چھ جنوری کو ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا تھا۔ کہا جارہا ہے کہ یہ تجربہ کامیاب رہا۔ پیونگ یانگ کے اس اقدام کے خلاف نہ صرف امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا نے سخت رد عمل ظاہر کیا بلکہ چین نے بھی کسی حد تک اس پراعتراض کیا۔

شمالی کوریا کے اقدام کے بعد چین شعوری طور پر اس بات کے لئے کوشاں تھا کہ تعصبات اور کشیدگی کا سلسلہ تھم جائے تو وہ شمالی کوریا کے اقدام کے بارے میں کوئی سنجیدہ فیصلہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ بیجنگ کے حکام نے شمالی کوریا کی جانب سے ہائیڈروجن بم کے تجربے کے بعد دو ہفتے تک شمالی کوریا کے خلاف کوئی سنجیدہ اور دھمکی آمیز بیان نہیں دیا لیکن عالمی برادری شمالی کوریا کے ایک سیاسی اور نظریاتی حامی نیز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر چین سے یہ توقع رکھتی ہےکہ وہ پیونگ یانگ کے مواقف میں تبدیلی کے لئےقدم اٹھائے گا اور وہ امریکہ اور دوسرے متعلقہ ممالک کا ساتھ دے گا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورۂ چین اور اس ملک کے صدر اور وزیر خارجہ کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کا جائزہ بھی اسی تناظر میں لیا جا سکتا ہے۔

چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے شمالی کوریا کےخلاف قرارداد جاری کرنے سے جو اتفاق کیا ہے تو اس کی وضاحت میں یہ کہنا چاہئے کہ شمالی کوریا کے خلاف چین کے موقف میں ایک سو اسّی درجے کی تبدیلی واقع نہیں ہوگی اور وہ ماضی کی طرح صرف قانونی طریقے سے شمالی کوریا کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کو ممکن جانتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وانگ یی نے ستائیس جنوری کو بیجنگ میں ایک پریس کانفرنسں میں کہا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد اس طرح مدون کی جانی چاہئے کہ جس سے شمالی کوریا کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے نہ یہ کہ جزیرہ نمائے کوریا میں کشیدگی میں شدت پیدا ہو۔

اسی پریس کانفرنس میں وانگ یی نے امریکہ سمیت دوسرے فریقوں کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ جاری رکھنے پر مبنی چین کے موقف کی بھی خبر دی اور کہا کہ شمالی کوریا کے خلاف قرارداد جاری کئے جانے کو اس کام کا اختتام نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اسے مذاکرات کے از سر نو آغاز کے مقصد کے تحت دھمکی آمیز موقف کو تبدیل کرنے کی بنیاد قرار دینا چاہئے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے سنہ دو ہزار تین سے اب تک شمالی کوریا کے ایٹمی معاملے کا کوئی واضح حل کیوں نہیں پیش کیا حالانکہ چین ہمیشہ سے مذاکرات کے ذریعے شمالی کوریا کے ایٹمی معاملے کے حل اور جزیرہ نمائے کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے پر تاکید کرتا رہا ہے۔

امریکہ کے بعض حکام کے بیانات اور ان کے رویے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہےکہ امریکی صدر باراک اوباما کی ٹیم کے لئے شمالی کوریا کی ایٹمی سرگرمیاں قابل برداشت نہیں ہیں اور وہ ان سرگرمیوں کی شدید مخالف ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ چھ فریقی مذاکرات کے بغیر موجودہ صورتحال کے برقرار رکھے جانے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ شمالی کوریا بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی فوجی اور ایٹمی سرگرمیاں جاری رکھے گا۔

چین کا بھی کہنا ہے کہ جب تک شمالی کوریا کے ایٹمی معاملے کے بارے میں واشنگٹن کی پالیسی میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آتی ہے تب تک اسے سیاسی میدان میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ پیونگ یانگ کے ایٹمی پروگرام کو کسی حد تک قبول کرتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چین شمالی کوریا کے حامی کے طور پر جزیرہ نمائے کوریا میں قیام امن اور سیاسی استحکام کے لئے کوشاں ہے۔ اسی لئے وہ شمالی کوریا پر یکطرفہ دباؤ ڈالنے اور اس کے مخالفین کو موقع فراہم کرنے کو غیر منصفانہ مراعات کے حصول کا ذریعہ جانتا ہے۔ چین کے زاویۂ نگاہ کے واضح معنی یہ ہیں کہ تمام متعلقہ ممالک کو قیام امن کی قیمت چکانی چاہئے۔

ٹیگس