امریکی فوجی منصوبے کی توسیع پر روس کا انتباہ
روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے پی جی ایس یا فوری طور پر عالمی سطح پر حملے سے موسوم امریکی فوجی منصوبے کی توسیع پر خبردار کیا ہے۔
انھوں نے امریکہ کی جانب سے نیا میزائل سسٹم بنائے جانے پر تشویش کا بھی اظہار کیا۔ روس کے نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کے اشتعال انگیز فوجی منصوبوں سے جوہری ہتھیاروں میں کمی کئے جانے کے بارے میں دونوں ملکوں کے ممکنہ مذاکرات پر تباہ کن اثرات مرّتب ہوں گے۔ روس کے نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ ایسی صورت حال میں جوہری ہتھیاروں میں کمی کئے جانے کے بارے میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے جانے کا امکان نہیں پایا جاتا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس نے جمعے کے روز اسٹارٹ ٹو معاہدے پر عمل درآمد کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر روس کے ساتھ نئے جوہری مذاکرات شروع کرنے کی درخواست کی تھی۔ روس کے نائب وزیر خارجہ کی جانب سے امریکہ کے پی جی ایس فوجی منصوبے کی طرف اشارہ، امریکہ کے جوہری اور میزائل بنانے جیسے ایسے خفیہ فوجی اقدامات پر ماسکو کی حساسیت کا مظہر ہے، جو پینٹاگون کی جانب سے امریکہ کے دشمنوں اور حریفوں کے مقابلے میں مکمل فوجی برتری حاصل کرنے کے مقصد سے عمل میں لائے جا رہے ہیں۔
اس سلسلے میں پی جی ایس یعنی پرامپٹ گلوبل اسٹرائک نامی ایک اہم منصوبہ ہے جس کا مقصد ایسے میزائل تیار کرنا ہے جن کے ذریعے سے دنیا کے کسی علاقے کو ایک گھنٹے کے اندر فوجی حملوں یہاں تک کہ جوہری حملوں کا نشانہ بنایا جا سکے۔ اس منصوبے میں فوجی کارروائی کے لئے وقت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس طرح سے آواز سے پانچ یا چھے گنا زیادہ تیز رفتاری سے مار کرنے والے میزائلوں سے دنیا کے کسی بھی علاقے کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور یہ منصوبہ، امریکہ کی جوہری برتری کے لئے اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے کہ فائر کے لئے امریکہ کے آمادہ تیس فیصد میزائل جوہری وار ہیڈز لے جانے کی بھی توانائی رکھتے ہیں۔
پی جی ایس منصوبے کی تجویز، جارج ڈبلیو بش کے پہلے صدارتی دور میں پینٹاگون کی دستاویزات میں پیش کی گئی تھی۔ امریکہ کا یہ فوجی منصوبہ، روس کی گہری تشویش کا باعث بنا ہے۔ اس لئے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد کی صورت میں بنیادی طور پر روس کے دفاعی جوہری ہتھیاروں کی توانائی پر سوال اٹھ کھڑے ہوں گے۔ چونکہ امریکہ اپنے اس منصوبے کی بنیاد پر روس کے باخبر ہونے سے قبل اور اس کی جوابی کارروائی کے بغیر ہی اس پر جوہری میزائلی حملہ کرنے پر قادر ہوجائے گا۔
البتہ موجودہ صورت حال میں امریکہ کی توجہ، ایسے میزائل بنانے کے لئے اس منصوبے کی توسیع پر ہے، جو روایتی وار ہیڈز لےجانے اور دنیا کے ہر علاقے تک پہنچنے کی صلاحیت رکھ سکیں۔ پینٹاگون کے دعوے کے مطابق امریکہ اس قسم کے ہتھیار رکھ کر اس بات پر قادر ہوجائے گا کہ دنیا کے گوشہ و کنار میں اپنے دشمن کو اچانک اپنے حملے کا نشانہ بنا سکے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ روس کے نقطۂ نظر سے امریکہ کا یہ منصوبہ، جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم کرنے کے واشنگٹن کے دعوے اور خاص طور سے جوہری ہتھیاروں میں کمی لانے کے لئے مذاکرات کے نئے دور کے آغاز کے لئے ماسکو سے، کی جانے والی اس درخواست کے منافی ہے جو امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس نے کی ہے۔ البتہ روسی حکام نے کہا ہے کہ ان کا ملک بھی اس قسم کا سسٹم تیار کرنے اور اس جیسے فوجی منصوبے کی توانائی رکھتا ہے مگر وہ اپنی دفاعی حکمت عملی کی ماہیت کی بناء پر اس طرح کے فوجی منصوبے کے درپے نہیں ہے۔
چنانچہ امریکہ کی جانب سے نیٹو کے ہمراہ نئے میزائل سسٹم کی تیاری اور یورپ کی سرزمین میں اس کی تنصیب، ماسکو کی برہمی کا باعث بنا ہے اور روسی حکام اس سلسلے میں سخت موقف اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جیساکہ روس کے نائب وزیر خارجہ نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے۔ اس بارے میں روس نے بارہا سنجیدہ طور پر دھمکی دی ہے کہ یورپ میں میزائل سسٹم کے قیام کے سلسلے میں امریکی اصرار کی صورت میں وہ اسٹارٹ دو معاہدے سے نکل جائے گا۔