افغانستان: طالبان اور حکمتیار سے اشرف غنی کی اپیل
ایسی حالت میں کہ افغانستان کی متحدہ قومی حکومت، طالبان کے ساتھ امن مذاکرات دوبارہ شروع کئے جانے کی کوشش کر رہی ہے، افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمتیار اور طالبان سے افغانستان کی تعمیر نو میں تعاون کرنے کی اپیل کی ہے۔
محمد اشرف غنی نے افغانستان سے سابق سوویت یونین کے فوجی انخلاء کی ستّائیسویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، تاکید کے ساتھ کہا کہ جہاد کا اہم ترین ثمرہ، افغان عوام کی آزادی رہا ہے اور افغانستان کی ثقافت میں جارح کے مقابلے میں جھکنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان، بہت حساس دور سے گذر رہا ہے اور ان کے ملک کے عوام نے بہت دشوار راستہ طے کیا ہے اور ملک میں امن و اتحاد کا حصول، سابق سوویت یونین کی فوج کو شکست دینے سے زیادہ دشوار نہیں ہے۔
سالگرہ کی اس تقریب میں افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی کے علاوہ، افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبد اللہ عبد اللہ اور متحدہ قومی حکومت کے دیگر اعلی عہدیدار بھی شریک تھے۔
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی اپنی حکومت کے دور میں طالبان سے بارہا اپیل کی تھی کہ وہ، ہتھیار ڈال دیں اور افغانستان میں امن کا عمل آگے بڑھانے میں مدد کریں۔
محمد اشرف غنی اور اسی طرح حامد کرزئی کے نقطۂ نظر سے طالبان اور حزب اسلامی، افغانستان کے اندرونی گروہ ہیں اور اسی بناء پر وہ، ملک میں جھڑپوں اور بحران کو اپنے ملک کا اندرونی مسئلہ سمجھتے ہیں نیز وہ، بیرونی حلقوں کی مداخلت کے بغیر افغانستان کے امن کے عمل میں طالبان اور حکمتیار کی شمولیت کے خواہاں ہیں۔
حال ہی میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے ایک بار پھر طالبان گروہ سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک میں برادر کشی سے دستبردار ہو جائے۔
افغان حکام کا خیال ہے کہ ان کے ملک میں جاری بحران میں بیرونی حلقوں اور مغربی نیز علاقے کے بعض ملکوں کا ہاتھ ہے، اس رو سے افغانستان کے مختلف صدور نے طالبان اور حکمتیار سے ہمیشہ اپیل کی ہے کہ وہ، اغیار کے آلۂ کار نہ بنیں اور ہتھیار ڈالتے ہوئے افغانستان میں امن کا عمل آگے بڑھانے اور ملک کو آباد کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
یہ مسئلہ اس اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے کہ عام شہریوں کے قتل عام کے بارے میں اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کی رپورٹوں میں طالبان اور دیگر مسلح گروہوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
طالبان گروہ، عام شہریوں کے قتل عام میں ملوث ہونے سے انکار کرتا ہے مگر اس بارے میں اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ سے اس بات کی ایک بار پھر تصدیق ہوتی ہے کہ افغانستان میں عام شہریوں کے قتل عام میں طالبان گروہ ملوث رہا ہے۔
بنابریں سیاسی مبصرین کے نقطۂ نظر سے اس کے باوجود کہ طالبان گروہ، افغانستان سے امریکہ کو نکال باہر کرنے کی کوشش کو اپنی سرگرمیوں کا جواز بنا کر ان کی توجیہ پیش کرتا ہے، تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف شہروں میں طالبان کے حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک و زخمی اور ہزاروں افراد بے گھر ہوئے ہیں اور اس صورت حال سے، طالبان کی ساکھ بھی، جو افغانستان میں پختون قوم سے متعلق ہیں، نہ صرف اس قوم، بلکہ پورے افغانستان میں ماضی سے کہیں زیادہ متاثر ہو سکتی ہے۔
حکومت افغانستان کے خلاف طالبان اور حکمتیار کی جاری جنگ، اس بات کا باعث بنی ہے کہ اندرونی و بیرونی آلۂ کاروں پر مشتمل داعش جیسا دہشت گرد گروہ بھی تشکیل پائے جو ملک کی تعمیر نو پر صرف ہونے والی کابل حکومت کی بیشتر توانائی، اس دہشت گرد گروہ کے مقابلے میں صرف ہونے کا باعث بنا ہے۔
جیساکہ افغانستان کے ایک جہادی رہنما عبد الرسول سیّاف نے افغانستان کی تقسیم پر انتباہ دیا بھی ہے اور انھوں نے افغانستان کے قومی اتحاد اور قومی اقتدار اعلی کے دفاع میں عوام کی شرکت کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔