Feb ۱۷, ۲۰۱۶ ۱۶:۵۵ Asia/Tehran
  • ترکی اور سعودی عرب کا شام فوج بھیجنے کا کھیل

داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف جنگ کے بہانے شام میں بری فوج کی موجودگی کی بحث تیز ہونے کے ساتھ ہی ترکی کے صدر اور سعودی عرب کے بادشاہ نے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے مواقف کو دہرایا-

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے منگل کو ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ جب تک بشاراسد اقتدار میں باقی رہیں گے اس وقت تک بحران شام کا کوئی راہ حل پیدا نہیں ہوگا-

ترکی کے صدر اور سعودی عرب کے بادشاہ نے شمالی حلب پر روس اور شامی فوج کے حملوں کو بزعم خود تشویش ناک قرار دیا-

شام کے علاقے حلب میں سعودی عرب اور ترکی کے حمایت یافتہ دہشت گرد اور مسلح گروہ، سخت مشکلات سے دوچار ہیں اور اس علاقے میں فوج اور کرد ملیشیاء کی پیشقدمی ، دہشت گردوں کے سیخ پا ہونے کا باعث بن گئی ہے کیونکہ اس صورت حال میں کھیل پر ان کی گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے-

شام کے علاقے حلب میں مختلف دہشت گرد گروہوں نے ترکی کے راستے مالی اور اسلحہ جاتی مدد حاصل کی ہے لیکن حالیہ دنوں میں یہ امدادی راستہ خطرے میں پڑ گیا ہے اور اسی وجہ سے داعش کے کل اور آج کے حامی، اس کے خلاف جنگ کو بہانہ بنا کر شام میں داخل ہونا چاہتے ہیں-

شام کے حالات کے سلسلے میں ترکی اور سعودی عرب کی روش کے پیش نظر اس ملک میں بری فوج اتارنے کا مقصد دہشت گردوں کے محاذ کو مضبوط بنانے کے سوا کچھ نہیں ہے کہ جو آخرکار ریاض اور انقرہ کی نگاہ میں بشاراسد کے دور حکومت کے خاتمے پرمنتج ہوگا-

شام میں بری فوج اتارنا، ایک ایسا خطرناک کھیل ہے کہ جو سعودی عرب ، ترکی اور قطر نے شروع کیا ہے لیکن یہ کھیل اب تک احتیاط کے ساتھ آگے بڑھتا رہا ہے -

سعودی عرب اور ترکی ہمیشہ اس بات کے منتظر رہے ہیں کہ داعش کے خلاف امریکی اتحاد کی حمایت سے ان دونوں میں سے کوئی ایک ملک شام میں فوج بھیجنے کے لئے آگے بڑھے لیکن اس کے خفیہ اور پیچیدہ پہلؤوں کے باعث ہمیشہ گھبراتے رہے ہیں-

ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اوغلو نے روئیٹرز نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے ، اس کھیل میں ریسک اور اس کے خطرناک ہونے کی تصدیق کی ہے-

چاؤش اوغلو کے بقول ترکی ، سعودی عرب اور بعض یورپی اتحادیوں نے شام میں بری فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا ہے لیکن اس سلسلے میں امریکی اتحاد میں کسی طرح کا اتفاق نظر نہیں پیدا ہو سکا ہے اور اس طرح کے اقدام کے لئے سنجیدگی سے کوئی اسٹراٹیجی زیربحث نہیں آئی ہے-

شام میں جنگ بندی کے لئے مونیخ میں ہونے والے اتفاق رائے اور شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسٹیفن ڈی میستورا کے منگل کو انجام پانے والے دورہ دمشق کے پیش نظر ایسا نظر آتا ہے کہ عالمی برادری اور بااثر و اہم کھلاڑی، بری فوج بھیجنے کے حق میں نہیں ہیں- اسی وجہ سے سعودی عرب اور ترکی ، اس کھیل میں اکیلے نہیں شامل ہونا چاہتے کیونکہ اس کا نتیجہ خودساختہ دلدل میں پھنسنا ہے-

ترکی کے وزیر خارجہ چاوش اغلو کے بقول ، شام فوج بھیجنے کے سلسلے میں مغرب کی صرف سعودی عرب، ترکی اور قطر سے توقع نہ ہی درست ہے اور نہ ہی حقیقت پسندانہ ہے- اس موقف سے پتہ چلتا ہے کہ بحران شام کے سلسلے میں ترکی اور سعودی عرب صرف اپنے بل بوتے پر کوئی قدم اٹھانے میں ناتواں ہیں-

سعودی عرب اور ترکی کے حکام شام میں بری فوج بھیجنے پر آمادگی کی بار بار تکرار کر کے اس آپشن سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں-

ٹیگس