Feb ۱۸, ۲۰۱۶ ۱۶:۲۵ Asia/Tehran
  • ترک دارالحکومت میں دھماکے

ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں زبردست دھماکوں میں اٹھائیس افراد ہلاک اور ستر کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔

ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں فوجیوں کے کواٹرز کے پاس اور ترک فوج کے چیفس آف آرمی اسٹاف کی عمارت سے تین سو میٹر دوری پر نہایت مہیب دھماکہ ہوا۔ واضح رہے ترک پارلیمنٹ بھی جائے وقوعہ سے قریب ہے۔اس دھماکے سے انقرہ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ اس بم دھماکے میں کم از کم اٹھائیس افراد ہلاک اور اکسٹھ زخمی ہوئے ہیں۔

ترک حکومت سے قریب ذرائع ابلاغ نے ماضی کی طرح کہ ماضی اس مرتبہ بھی ان حملوں کا ذمہ دار کردستان کے پی کےکے گروپ کو قرار دیا ہے۔یہ ایسے عالم میں ہے کہ ابھی کسی گروہ نے انقرہ کے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

بدھ سترہ فروری کو انقرہ میں ہونے والے دھماکے کے آفٹر شاکس کی وجہ سے ترک وزیر اعظم داود اوغلو نے اپنے برسلز کے دورے نیز ترک صدر رجب طیب اردوغان نے جمہوریہ آذربائجان کا دورہ منسوخ کردیا ہے اور ترک صدر اور حکومت کے دیگر اعلی حکام کی شراکت سے ہنگامی سکیورٹی اجلاس ہوا۔ ادھر یہ بھی اطلاعات ملی ہیں کہ سویڈن میں ترکی کے ایک ثقافتی مرکز کے قریب بھی دھماکہ ہوا ہے۔ سویڈن کے ذرایع ابلاغ نے جمعرات کو رپورٹ دی ہے کہ دارالحکومت اسٹاک ہوم کے مضافاتی علاقے میں ترکی کے ثقافتی مرکز کے قریب ایک زبردست دھماکہ ہوا ہے۔سویڈش پولیس نے اس دھماکے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکے سے عمارت کی کھڑکیوں کے تمام شیشے ٹوٹ گئے۔

ترکی کے صدر نے انقرہ دھماکے کےکچھ گھنٹوں بعد ایک بیان جاری کرکے کہا کہ جو ایجنٹ اس طرح کے حملوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور اب وہ کسی بھی اخلاقی اور انسانی حدود کے قائل نہیں رہے ہیں ان کے خلاف پہلے سے زیادہ پختہ عزم کے ساتھ مقابلہ جاری رہے گا۔

یاد رہے بدھ کو ہونے والا یہ دھماکہ پہلا دھماکہ نہیں ہے جو ترکی میں ہورہا ہے۔ دراصل ترک حکومت میں اس وقت سے بدامنی شروع ہوگئی تھی اور یہ ملک اقصادی اور سماجی لحاظ‎ سے عدم تحفظ کا شکار ہوگیاتھا جب سے ترکی نے اپنی مبھم خارجہ پالیسی کے تحت ہمسایہ ملکوں میں مداخلت کرنے کو ترجیحی بنیادوں پر اپنالیا تھا۔ترکی شام کے صدر بشار اسد کے مخالف گروہوں کی حمایت کررہا ہے اور ان کے لئے مختلف طرح کے لاجیسٹیک اور سہولتیں اور افراد قوت فراہم کرکے ان کی ہمہ گیر حمایت کررہا ہے اور اسے ترکی نے گذشتہ برسوں میں اپنی خارجہ پالیسی کاحصہ بنالیا ہے۔

ترک حکام نے صوبہ شانلی اروفا کے شہر سوروچ میں گذشتہ جولائی میں ہونے والے دھماکے کو پی کےکے گروپ کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے اور شمالی عراق تک اس گروپ کے ٹھکانوں پرحملوں کا بہانہ بنایا تھا۔ ترک حکام اپنے ملک میں ہر طرح کے دہشتگردانہ واقعے کو پی کےکے گروپ کا کام قراردیتے ہیں۔ گویا انقرہ کے حکام کے تجزیاتی دائرے میں پی کےکے گروپ کے علاوہ کوئی دوسرا گروہ ترکی میں بدامنی پھیلانے میں قصور وار نہیں ہے۔ قابل ذکرہے دائیں بازو، اور سوشلسٹ گروہ نیز تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے عناصر کہ جوشام میں حالیہ ہزیمتوں کے بعد ترکی فرار ہوکر آئے ہیں یہ بھی ترکی میں بم دھماکوں میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ لیکن بظاہر پی کے کے گروپ ہی ترک حکام کے نزدیک ترکی میں بدامنی پھیلانے والا اصلی گروہ ہے۔ بظاہر ترک حکام پی کے کے گروپ کو دہشتگردی منجملہ انقرہ کے دھماکوں کا ذمہ دار ٹہراکر کئی اھداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان اھداف میں پی کےکے گروپ کو کچلنے کی پالیسی کو آگے بڑھانا یہانتک کہ دیگر ملکوں بھی اس کے خلاف حملے کرنا اور ان ملکوں میں ترکی کی فوجی موجودگی بھی شامل ہے۔ اس بات میں بھی کسی طرح کا شک نہیں ہے کہ پی کےکے گروپ ماضی میں ترک فوج کے حملوں کے جواب میں دارالحکومت اور دیگر اہم اقتصادی اور صنعت سیاحت کے لحاظ سے اہم شہروں پرحملہ کرتا رہا ہے لیکن ترک حکام کی جانب سے صرف اس گروہ کو بدامنی کا ذمہ دار قراردینا قابل غور ہے۔

اس صورتحال کو ترکی کی حکمران پارٹی انصاف و ترقی کی خارجہ اور داخلی پالیسی میں دیکھنا چاہیے۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے ترکی نے سیاسی، سیکورٹی اور اقتصادی نیز انسانی لحاظ سے بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے لیکن اسکے باوجود مستقبل قریب میں داخلی اور علاقائی حالات کے تعلق سے ترک حکوم کی پالیسیوں میں تبدیلی آنے امید نہیں کی جاسکتی۔

ٹیگس