Feb ۱۹, ۲۰۱۶ ۱۷:۴۳ Asia/Tehran
  • سعودی وزیر خارجہ کا غیر منطقی بیان

سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے سیاسی بیان بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شام میں سعودی فوجیوں کا مشن داعش کے خلاف جنگ قرار دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ شام میں دہشت گردی کے خلاف موجودہ صورت حال سعودی عرب کی کوشش سے وجود میں آئی ہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ اس کے باوجود کہ سعودی عرب، کافی پہلے سے شام میں بشار اسد کے خلاف رہا ہے تاہم امریکی اتحاد میں شامل سعودی فوجی جس کارروائی میں بھی شرکت کریں گے ان کی توجہ بشار اسد نہیں بلکہ داعش گروہ کے خلاف جنگ پر ہو گی۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت شام میں ایک بین الاقوامی جنگ کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے جس میں شام کے اندرونی و بیرونی مخالفین، علاقے کے ممالک، عالمی طاقتیں اور مختلف دہشت گرد گروہ شامل ہیں۔

اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں شامی شہری جاں بحق و زخمی اور دسیوں لاکھ  دیگر بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ اس ملک میں خاص طور سے اقتصادی و سماجی اعتبار سے معمول کی زندگی گذارنے کے لئے بنیادی تنصیبات بالکل تباہ ہو چکی ہیں۔

اگرچہ شام کے بحران کے کئی فریق بنے ہوئے ہیں تاہم اس میں دو رائے نہیں کہ اس بحران میں اصل کردار سعودی عرب ادا کرتا رہا ہے۔

سعودیوں نے سن دو ہزار گیارہ میں عرب احتجاجات کا سلسلہ شروع ہونے اور مختلف عرب ممالک میں اقتدار پر ان کے آلۂ کار حکام کی گرفت کمزور پڑ جانے کو مغربی ایشیاء میں ایک ایسے، نئے دور کے آغاز سے تعبیر کیا جو سرانجام علاقے میں اقتدار کا توازن تبدیل اور ان کی پوزیشن کمزور ہونے پر منتج ہو گا۔

اسی بناء پر آل سعود نے مغربی ایشیاء میں سودے بازی نہ کرنے والے اور علاقے میں مزاحمت کے ایک اہم مرکز کی حیثیت سے شام کو اپنا نشانہ بنایا۔

سعودی عرب نے شام میں حکومت کے خلاف ہنگامے اور بحران و بدامنی پیدا کرنے کے لئے بے تحاشہ اخراجات کئے اور اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور اردن جیسے مغربی ایشیاء کے چھوٹے چھوٹے ملکوں سے مدد لی۔

سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر ایسی حالت میں شام میں بشار اسد کی برطرفی نہیں بلکہ داعش کے خلاف جنگ میں اپنی ملک کی ترجیح کی بات کر رہے ہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران شام میں بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے ان کے ملک کی حکومت نے نہ صرف بحران و بدامنی میں بھرپور کردار ادا کیا بلکہ اس ملک میں دہشت گرد گروہوں کی ہر طرح کی مدد بھی کی ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بحران شام میں سعودی حکومت کا منفی کردار اور کوششیں نہ صرف احتجاجات، دہشت گردوں کی حمایت اور اس ملک کے اندرونی بحران کو ایک بین الاقوامی جنگ میں تبدیل کرنے تک محدود نہیں رہیں بلکہ وہ بحران شام کے حل کے لئے مذاکرات کی ناکامی اور ہر طرح کی کوششوں میں رکاوٹ کا باعث بھی بنی رہی ہیں اور رکاوٹ پیدا اور منفی کوششوں کا ایک ثبوت جنیوا تین مذاکرات کے سلسلے میں سعودی عرب کا، وہ کردار ہے جو شام کے اقتدار میں بشار اسد کی موجودگی کی مخالفت کرتا رہا ہے۔اس بات کے بے پناہ ثبوت و شواہد موجود ہیں کہ سعودی عرب، شام میں بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے اور اس ملک میں مختلف دہشت گرد گروہوں منجملہ داعش دہشت گروہ کی بھرپور حمایت کرتا رہا ہے اور اس بارے میں بارہا رپورٹیں بھی پیش کی گئی ہیں۔

چنانچہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ایسی حالت میں سیاسی لفاظی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شام میں سعودی فوجیوں کا مشن داعش کے خلاف جنگ قرار دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ شام میں دہشت گردوں کے خلاف موجودہ صورت حال، سعودی عرب کی کوشش سے وجود میں آئی ہے کہ سیاسی مبصرین ان کے اس بیان کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔

ٹیگس