فائر بندی کے نفاذ کے لئے بشار اسد کی مشروط آمادگی
شام کے صدر بشار اسد نے شام میں فائر بندی کے لئے اپنی مشروط آمادگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں فائر بندی کا نفاذ اسی صورت میں ممکن ہے کہ تمام مقابل فریق بھی فائر بندی کے اعلان پر مکمل طور پر عمل درآمد کریں۔
شام کے صدر نے ان خلاف ورزیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ جن کے نتیجے میں شامی عوام پر جنگ، بدامنی اور دربدری مسلط کی گئی ہے، کہا ہے کہ فائر بندی کے نفاذ کی ایک اور شرط، دہشت گردوں کے لئے ہتھیاروں کی ترسیل اور ترکی اور بعض عرب نیز بعض مغربی ملکوں کی جانب سے دہشت گردوں کی حمایت مکمل طور پر بند کیا جانا ہے۔ سن دو ہزار گیارہ میں شام کے بحران کے آغاز سے ہی دنیا کے اسّی ملکوں نے دہشت گردوں کو شام روانہ اور ان کی ہمہ جہتی حمایت کی ہے۔
اگرچہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے میونیخ سمجھوتے پرعمل درآمد کی امید کے تناظر میں مستقبل قریب میں شام میں فائربندی کے نفاذ کی پیش گوئی کی ہے، تاہم موجودہ قرائن و شواہد سے فائر بندی کے نفاذ کے عمل میں تاخیر ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ میونیخ سیکورٹی کانفرنس میں شرکت کرنے والے سترہ ملکوں اور تین بین الاقوامی تنظیموں نے شام میں فائر بندی اور اس ملک میں جنگ سے متاثرہ اور بے گھر لوگوں کی امداد کے لئے راحت کا سامان اور امدادی قافلے روانہ کئے جانے سے اتفاق کیا ہے، مگر جنیوا مذاکرات کی ناکامی سے شام میں امن کی بحالی کا مسئلہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ جنیوا تین مذاکرات کا عمل تعطل سے دوچار ہونے کے بعد پوری دنیا اب اس بات کی امید کر رہی ہے کہ شام میں عارضی جنگ بندی کے نفاذ کے ساتھ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ان مذاکرات کے دوبارہ آغاز کے لئے راہ ہموار ہو جائے گی۔
شام کے امور میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے دے میستورا نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ جنیوا تین مذاکرات کا عمل جاری رکھنا اب ناممکن ہے اور وہ شامی فریقوں کو مقررہ تاریخ کے اندر مذاکرات کی میز پر لانے پر قادر نہیں ہیں، عملی طور پر مذاکرات کا عمل تعطل سے دوچار ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ مذاکرات کا عمل سعودی عرب اور ترکی کی خلاف ورزیوں کی بناء پر تعطل سے دوچار ہوا ہے اور ان مذاکرات کی ناکامی کی بناء پر شام میں فائر بندی کا نفاذ بھی کافی مشکل ہو گیا ہے۔ مغرب، عرب اور ترکی کے مثلث نے فوجی رخ اپنا کر اور تکفیری دہشت گرد گروہوں منجملہ داعش اور النصرہ کی بھرپور حمایت کر کے شام کے پانچ سالہ بحران کے حل کے لئے بین الاقوامی کوششوں کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔ خاص طور سے ایسی صورت میں کہ میونیخ کانفرنس کے موقع پر ترکی نے دہشت گردی کے محاذ کو مستحکم بنانے اور شمالی شام میں دہشت گردوں کی موجودگی کے لئے مسلح عناصر کے داخلے کی غرض سے شام سے ملنے والی اپنی سرحدوں کو کھول کر فائر بندی کے عمل کے لئے بہت زیادہ سخت مسائل پیدا کر دیئے ہیں۔ اس وقت فائر بندی کے تعلق سے بین الاقوامی وعدوں کے باوجود دہشت گرد عناصر، بیرونی امداد و حمایت کی بناء پر جنگ جاری رکھنے پر زور دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ شام میں جنگ، ہرگز بند نہیں کی جائے گی۔
اب ایسی صورت حال میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں نے شام میں سیاسی مذاکرات کے مسئلے کو عملی طور پر ویٹو کردیا ہے تاکہ وہ فوجی طریقے سے اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ مغرب نے شام کے اندرونی امور میں کھلی مداخلت کرکے اس ملک کی صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے اور وہ دو رخی پالیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک جانب شام میں فائر بندی کے نفاذ کی بات کر رہا ہے اور دوسری جانب شام میں دہشت گردوں کی حمایت کر کے اس ملک میں بدستور جنگ کی آگ کے شعلے بھڑکا رہا ہے۔ بنابریں فائر بندی کے لئے دمشق حکام کے اعلان آمادگی کے باوجود دہشت گردوں اور مخالف عناصر کی جانب سے کسی بھی معاہدے پر عدم پابندی کے اقدام سے، شام میں فائر بندی کا نفاذ ناممکن نظر آرہا ہے۔