شام میں فائر بندی پر مثبت و منفی ردعمل کا اظہار
شام میں فائر بندی کا عمل ایسی حالت میں چوتھے روز میں داخل ہوا ہے کہ فائر بندی کے فیصلے کے بارے میں امید و بیم کی صورت حال جاری ہے۔
شام میں فائر بندی ہفتے کے روز شروع ہوئی ہے اور شامی عوام اس فائر بندی کی کامیابی کے بارے میں امیدیں لگائے ہوئے ہیں جبکہ امریکہ اور روس بھی فائر بندی کے اس عمل کو مثبت نقطۂ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
شام میں فائر بندی پر روس اور امریکہ کے درمیان ہونے والے اتفاق رائے سے عمل درآمد شروع ہوا ہے جس کا شامی عوام اور روس و امریکہ نے خیر مقدم کیا ہے تاہم اس فائر بندی کے نتیجے کے بارے میں شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہیں۔ شام کے امور میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے اسٹیفن دی مستورا کے مطابق غیر متوقع حملوں اور داعش اور جبہۃ النصرہ جیسے دہشت گرد گروہوں کی جاری سرگرمیاں فائر بندی کے سمجھوتے کے لئے خطرہ ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ شام میں فائر بندی کا سمجھوتہ ایک عالمی سمجھوتہ ہے اور فائر بندی کے بعض واقعات کا مشاہدہ کئے جانے کے باوجود اس سمجھوتے پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران شام میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہنے کی بناء پر کبھی فائر بندی کا نفاذ عمل میں نہیں آیا ہے اور کسی بھی طرح کی فائر بندی کی فوری طور پر خلاف ورزی ہوتی رہی ہے، کہا ہے کہ فائر بندی کے اس سمجھوتے پر عمل درآمد جاری رکھے جانے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ سات مارچ کو حکومت شام اور مخالفین کے درمیان مذاکرات کے آغاز کے حالات سازگار ہوسکیں۔
شام میں فائربندی، داعش اور جبہۃ النصرہ جیسے دہشت گرد گروہوں کے شامل حال نہیں ہے اور شام کے بعض علاقوں میں ان دونوں دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں جاری ہیں اور دونوں دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں پر بھی حملے بدستور جاری رہیں گے۔ شام میں داعش اور جبہۃ النصرہ جیسے دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں پر روسی فوج اور روس کے لڑاکا طیاروں کے حملے بدستور جاری ہیں جبکہ روس اور شام کے قانونی اقدام پر امریکہ، ترکی، قطر اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں کے معنی خیز ردعمل نے اس ملک میں فائر بندی کے سمجھوتے کی ضمانت کو مشکل بنا دیا ہے۔ شام کے مخالف مسلح گروہوں اور ان کے حامی ملکوں نے روس اور شام پر الزام لگایا ہے کہ وہ فائر بندی کے دوران بعض علاقوں میں خاص مقاصد کے تحت اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
شام کی صورت حال پیچیدہ اور فائر بندی کے عمل سے غلط فائدہ اٹھانے کے لئے مسلح مخالفین اور ان کے حامیوں کی کارکردگی کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کے باوجود عالمی برادری کی کوشش ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر بائیس چوّن کے دائرے میں شام کا پانچ سالہ بحران ختم کر دیا جائے۔ شام میں فائر بندی کا نفاذ اور جنیوا میں امن مذاکرات کا انعقاد، بحران شام کے سیاسی حل کے عمل کا پیش خیمہ ہے۔ قرارداد نمبر بائیس چوّن پر عمل درآمد کے مراحل طے ہونے کے ساتھ شام میں انتخابات کرائے جانے کی باری ہوگی تاکہ اس ملک کے عوام، مکمل پرامن اور آزادانہ ماحول میں اپنے ملک اور بشار اسد کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرسکیں۔
شام کی امن قرارداد کا عمل، منطقی ہے جسے بحران شام کے تمام فریقوں کی حمایت بھی حاصل ہے تاہم ان اندرونی و بیرونی فریقوں کے نظریات میں پائے جانے والے اختلافات نے بحران شام کے حل کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ چنانچہ شام کے امور میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے نے شام کی میدانی صورت حال کے بارے میں الگ الگ تشریح اور بحران شام کے حل کے طریقوں پر عمل کرنے کے بارے میں نظریات میں پائے جانے والے اختلافات کے پیش نظر ہی اس ملک کی صورت حال پیچیدہ ہونے کی جانب اشارہ کیا ہے۔