Mar ۰۷, ۲۰۱۶ ۱۶:۵۸ Asia/Tehran
  • اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں ایران کے مواقف پر تاکید

اسلامی تعاون تنظیم کا پانچواں ہنگامی سربراہی اجلاس، مختلف اسلامی ملکوں کے سربراہوں اور پانچ سو سے زائد نمائندوں کی شرکت سے پیر کے روز انڈونیشیاء کے دارالحکومت جکارتا میں شروع ہو گیا۔

بیت المقدس اور مسئلہ فلسطین پر اس اجلاس میں اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے شرکت کی۔ انھوں نے اس اجلاس سے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیتے ہوئے، کہ قدس اور مسئلہ فلسطین کو او آئی سی میں خاص ترجیح حاصل ہے، فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی سے متعلق کئے جانے والے وعدوں پر عمل درآمد کئے جانے کی ضرورت پر تاکید کی۔

ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے خطاب میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس عالمی ادارے نے مختلف وجوہات کی بناء پر اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق اپنا فریضہ انجام دینے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا ہے اور اس بات کی اجازت دی ہے کہ عالمی امن و سلامتی کے لئے خطرے کی حیثیت سے صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ پالیسیاں جاری رہیں۔

انھوں نے تاکید کے ساتھ کہا کہ ایک منظم دائرہ کار میں فلسطین سے غاصبانہ قبضہ ختم کرانے کے لئے عملی اقدامات اور فلسطین کی مکمل آزادی کی راہ میں اٹھائے جانے والے ایک قدم کے عنوان سے مقبوضہ شہر بیت المقدس کی ماہیت تبدیل کرنے کے لئے غاصب صیہونی حکومت کے غیر قانونی اقدامات کی روک تھام کئے جانے کی اشد ضرورت ہے۔

غاصب صیہونی حکومت، برسوں سے ایک منظم سازش کے تحت فلسطینی علاقوں کا اسلامی تشخّص ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے یہ غیر قانونی اقدامات، فلسطینیوں کی شہریت ختم، فلسطینی علاقوں سے اسلامی مقامات کے خاتمے اور شہر بیت المقدس کی معماری اور اس کا ثقافتی ڈھانچہ تبدیل کئے جانے کی صورت میں جاری ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ فلسطین کے بارے میں تمام معاہدوں اور وعدوں پر عمل کئے جانے کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔ او آئی سی کے جکارتا اجلاس سے خطاب میں بھی انھوں نے ایک پھر اسی نکتے پر تاکید کی ہے۔ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ اس کے باوجود کہ ایران، اس بات کو سمجھتا ہے کہ اس کے خلاف حالیہ عشروں کے دوران جتنا بھی دباؤ ڈالا گیا ہے وہ، تہران کی جانب سے فلسطینی امنگوں کی حمایت کئے جانے کا نتیجہ رہا ہے، تاہم وہ فلسطینی امنگوں کی حمایت کرنے کی اپنی اس پالیسی کو بدستور جاری رکھے گا۔ ایران نے ناوابستہ تحریک کی اپنی صدارت کے دور میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں عالمی سطح پر قابل ذکر کوششیں بھی کی ہیں۔

بیت المقدس کے دفاع کے لئے صیہونی حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کے مقابلے میں استقامت کو مستحکم بنانے کے لئے تمام اسلامی ملکوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ بالفاظ دیگر فلسطینی امنگوں کی حمایت کے لئے غزہ کا محاصرہ ختم کرانے کے لئے تمام اسلامی ملکوں کے مشترکہ عزم و ارادے کی ضرورت ہے۔ غزہ کے عوام نے گذشتہ سات برسوں سے زائد عرصے سے جاری محاصرے کے دوران صیہونی حکومت کے حملوں منجملہ پچاس روزہ جنگ میں استقامت کا مظاہرہ کر کے غاصب صیہونیوں کے قبضے سے فلسطین کو آزاد کرانے کے لئے اپنے پختہ عزم و ارادے کا اظہار کیا ہے حالانکہ بعض فلسطینی گروہوں کے رہنما، اقتدار کی جنگ اور صیہونی حکومت کے ساتھ صلح صفائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ اس سلسلے میں دیگر مسائل بھی کم نہیں ہیں۔

جیساکہ بعض اسلامی ممالک اختلاف و تفرقہ کا شکار ہیں۔ البتہ بعض اختلافات سامراجی دور کی میراث ہیں۔ جبکہ عالم اسلام کو ان تمام اختلافات سے مکمل دوری اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی صورت حال میں اسلامی تعاون تنظیم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ، اس سلسلے میں یکسوئی و تعاون سے متعلق اسلامی ملکوں کی ترغیب کے ذریعے فلسطینی قوم کی حمایت کے بارے میں اپنے ذاتی فریضے پر عمل کرے گی ورنہ دوسری صورت میں یہ تنظیم، اپنا فلسفۂ وجودی کھو بیٹھے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ فلسطین، غاصبانہ قبضے، انتہا پسندی، دہشت گردی اور عالمی برادری کی لاتعلقی کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے اور اس جاری صورت حال میں صیہونی سازشیں بھرپور طریقے سے رچائی جا رہی ہیں۔ چنانچہ فلسطین کے مستقبل کے بارے میں ایران کی پالیسی، فلسطینی قوم کے حقوق کی بحالی اور غاصب صیہونی حکومت کے مقابلے میں فلسطینی عوام کے برحق مطالبات پر توجہ دیئے جانے کی ضرورت پر استوار ہے۔

ٹیگس