Mar ۰۹, ۲۰۱۶ ۱۴:۱۸ Asia/Tehran
  • ایران کی جانب سے بلسٹیک میزائلوں کا تجربہ

اسلامی جمہوریہ ایران نے تجربات کے طور پر اپنے کئی بلسٹیک میزائلوں کو فائر کیا ہے۔ یہ میزائلی مشقیں، دفاعی طاقت کا مظاہرہ اور انقلاب، نظام اور ملک کی ارضی سالمیت کے لئے کسی بھی قسم کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمہ جہتی آمادگی پر تاکید کے ساتھ کئی مرحلوں میں انجام پائیں۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر انچیف نے منگل کے روز اقتدار ولایت میزائلی مشقوں کا آخری مرحلہ مکمل ہونے کے بعد تاکید کے ساتھ کہا کہ جو بھی اسلامی جمہوریہ ایران سے زیادہ دشمنی برتے گا فطری طور پر اسے ایران کی دفاعی توانائی اور آمادگی پر فکرمند ہونا پڑے گا۔ ایران کے میزائلی تجربات کو بعض حلقوں کی جانب سے سلامتی کے لئے خطرے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جاش ارنسٹ نے اپنی پریس کانفرنس میں مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے میزائلی تجربات، ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہیں۔ البتہ اس ترجمان نے کہا کہ اس سلسلے میں تحقیقات اور اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ آیا اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیا جائے یا نہیں۔

دوسری جانب امریکی وزارت دفاع کے ترجمان پیٹر کک نے ایران کے میزائلی تجربات کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پینٹاگون کا خیال ہے کہ ایران کے یہ تجربات، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہیں۔ سلامتی کونسل کی قرارداد انّیس انتیس کی بنیاد پر، جو جون دو ہزار دس میں منظور کی گئی تھی، ایران کو کسی بھی طرح کے بلسٹیک میزائلوں کے تجربات سے روکا گیا تھا مگر قرارداد بائیس اکتّیس میں، جو ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ایٹمی معاہدے کے بعد جولائی دو ہزار پندرہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور کی گئی ہے، سلامتی کونسل کی اس سے قبل کی تمام قراردادوں کو منسوخ کر دیا گیا۔ نئی قرارداد میں ایران سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد کے دوران خاص طور سے ایٹمی وار ہیڈز لے جانے والے میزائلوں کو فروغ دینے سے گریز کرے۔ اس وقت اس بات کا دعوی کیا جا رہا ہے کہ ایران کے میزائل، روائتی اور ایٹمی وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ ایرانی میزائل، ایٹمی وار ہیڈز لے جانے کے لئے ہرگز تیار نہیں کئے گئے ہیں۔

ایران نے ایٹمی معاہدے سے قبل ہی صراحت کے ساتھ اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ایران کی دفاعی میزائلی توانائی کے بارے میں کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے اور اسلامی جمہوریہ ایران اس بارے میں امریکہ یا کسی بھی مقابل فریق سے ہرگز کوئی مذاکرات نہیں کرے گا۔ اسی طرح ایران کے اعلی حکام نے بارہا اعلان کیا ہے کہ دفاعی توانائی میں جوہری ہتھیاروں کو کوئی حیثیت حاصل نہیں ہے اور ایران مکمل طور پر ان ہتھیاروں کے خلاف ہے۔ایران کے بلسٹیک میزائل بھی ایٹمی وار ہیڈز لے جانے کے لئے تیار نہیں کئے گئے ہیں اور نہ ہی اس مقصد کے لئے ان کا کوئی تجربہ کیا گیا ہے۔ بنابریں ایران کی دفاعی توانائی، کسی ملک کے لئے خطرہ نہیں ہے بلکہ علاقائی و عالمی سلامتی کو فروغ دینے کے لئے صرف دفاعی طاقت کا مظاہرہ ہے۔ جبکہ امریکی حکام، ایران کے میزائل تجربات کو بہانہ بناکر ایرانوفوبیا کے اپنے منصوبے کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ایران کی میزائلی توانائی، انسانی حقوق اور جمہوریت، امریکہ کے یہ تین ایسے انتخابی مسائل ہیں کہ جنھیں وہ ایران پر دباؤ کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہا ہے۔ چنانچہ امریکہ کی جانب سے انتخابی طور پر پیدا کئے جانے والے ان تمام مسائل کو ایک جملے میں سمیٹ کر صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایران سے دشمنی برتنے کے لئے جھوٹے اور بے بنیاد دعوؤں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

ٹیگس