افغانستان میں گیلانی کے بیان پر تنقید
افغانستان میں اعلی امن کونسل کے سربراہ کے حالیہ بیان پر اس ملک کے سیاسی حلقوں کی جانب سے منفی ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ طالبان کے بارے میں اعلی امن کونسل کے سربراہ پیر سید احمد گیلانی نے بیان دے کر خود اپنی قانونی حیثیت اور مقام پر سوالیہ نشان لگا لیا ہے۔ عبد اللہ عبد اللہ نے کابل میں مارشل قاسم فہیم کی دوسری برسی کے پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں اعلی امن کونسل کے سربراہ کا یہ بیان کہ طالبان کے خلاف جنگ کا کوئی جواز نہیں پایا جاتا، تاریخ افغانستان میں افغان عوام کی جدوجہد کے ثمرات کا مذاق اڑانا ہے۔
افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ کسی کو، خواہ وہ جس مقام پر بھی ہو، افغانستان کے دشمنوں کے مقابلے میں افغان فوج اور عوام کی استقامت کو نظر انداز کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اور طالبان کے خلاف جنگ کے ناجائز ہونے کا اعلان کرنا اپنی قانونی حیثیت اور مقام گنوا دینے کے مترادف ہے۔ افغانستان کی اعلی امن کونسل کے سربراہ پیر سید احمد گیلانی نے حال ہی میں اعلان کیا کہ طالبان کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات ہیں اور وہ، اس گروہ کے خلاف جنگ کو جائز نہیں سمجھتے۔
برسی کے اس پروگرام میں افغانستان میں اعلی امن کونسل کے نائب سربراہ محمد کریم خلیلی نے بھی کہا کہ افغان عوام، پائیدار امن کے خواہاں ہیں اور وہ گذشتہ تین عشروں کے دوران حاصل ہونے والی کامیابیوں کو امن کی بھینٹ ہرگز نہیں چڑھنے دیں گے۔ اس پروگرام میں افغانستان کے معروف جہادی رہنما عبد الرسول سیاف نے بھی پیر سید احمد گیلانی پر ملک سے غداری کرنے کا الزام لگایا۔ افغانستان میں حامد کرزئی دور حکومت کے سینیئر نائب صدر محمد قاسم فہیم کا دو برس قبل دل کا دورہ پڑنے کے نتیجے میں انتقال ہو گیا تھا۔
افغانستان میں طالبان گروہ نے سن نوّے کے عشرے کے وسط میں کابل پر قبضہ کرنے کے بعد اس ملک کے بعض علاقوں پر دو ہزار ایک تک حکومت کی تھی۔ یہ گروہ، جنوبی افغانستان میں اسپین بولدک کے سرحدی علاقے پر حملہ کرکے ظاہر ہوا تھا۔ طالبان گروہ کو پاکستان اور علاقے کے بعض عرب ملکوں منجملہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل تھی۔ افغانستان کے جہادی گروہوں کو، جو اپنے ملک سے سابق سوویت یونین کی ریڈ آرمی کو نکال باہر کرنے کی جاں فشانی کرتے رہے، اچانک ایک ایسے گروہ کا سامنا کرنا پڑا جو اپنے خاص مذہبی عقائد کی بنیاد پر افغانستان میں خاص نوعیت کی مذہبی حکومت قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ اغیار سے طالبان گروہ کی وابستگی اس بات کا باعث بنی کہ تمام جہادی گروہ، طالبان کے خلاف متحد ہو گئے۔ خاص طور سے عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں طالبان کے سخت گیر مواقف، افغانستان میں اس گروہ سے عام نفرت پیدا ہونے کا موجب بنے۔ جب کہ القاعدہ کے ساتھ طالبان کا تعاون اس بات کا باعث بنا کہ اس گروہ کو دہشت گردوں کا حامی قرار دیا جانے لگا اور پھر امریکہ کو افغانستان پر دو ہزار ایک میں حملہ کرنے کا بہانہ ہاتھ آگیا اور اس نے اس ملک پر اپنا قبضہ جمالیا۔
درحقیقت افغان عوام اور اس ملک کے جہادی گروہوں کے درمیان، افغانستان میں طالبان گروہ کے وجود اور اس کی حکومت کو افغانستان کی تاریخ میں سیاہ دھبہ سمجھا جاتا ہے، جو افغان سرکاری فوج کے خلاف اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور بدستور افغان عوام اور حکومت کی مخالفت کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت افغانستان، اس بات کی کوشش کر رہی ہے کہ امن عمل کے دائرے میں طالبان کو اس بات پر راضی کرے کہ وہ ہتھیار ڈالتے ہوئے افغانستان میں امن و استحکام کے قیام میں مدد کریں۔ افغانستان کی اعلی امن کونسل کا قیام بھی اسی مقصد کے تحت عمل میں آیا تھا۔
سیاسی مبصرین اور سابق جہادیوں کے نقطہ نظر سے حکومت افغانستان کی مذکورہ کوشش کا مطلب، یہ ہرگز نہیں ہے کہ طالبان گروہ جواز رکھتا ہے اور اس کے خلاف جنگ نہیں کی جاسکتی۔ افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ طالبان کے ایسے عناصر سے مذاکرات نہیں ہوں گے کہ جن کے ہاتھ افغان عوام کے خون سے آلودہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ طالبان جب تک ہتھیار ڈال کر افغانستان کے امن عمل میں شامل نہیں ہوتے وہ بدستور افغان حکومت اور عوام کے مخالف سمجھے جاتے رہیں گے۔