پاکستان اور دہشتگردی سے مقابلہ
پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف دوہرے معیارات
پاکستان کے عوام کو توقع تھی کہ ان کے ملک کی عدالت دہشتگردی کے تمام عوامل سے سختی سے پیش آئے گی لیکن پاکستانی عدالت نے تکفیری دہشتگرد گروہ سپاہ صحابہ کے سرغنے اورنگزیب فاروقی کو رہا کردیا ہے۔
پاکستان میں انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے تکفیری دہشتگرد گروہ سپاہ صحابہ کے سرغنے کو نو ماہ جیل میں رکھنے کے بعد آزاد کردیا ہے۔
سپاہ صحابہ کا دہشتگرد سرغنہ صوبہ پنجاب کی اڈیالہ جیل میں بند تھا۔ سپاہ صحابہ کا دوسرا نام تنظیم اھل سنت والجماعت ہے۔ اورنگزیب فاروقی کو چھے جون دوہزار پندرہ کو تفرقہ آمیز تقریر کرنے پر شہر ٹیکسیلا میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ایسے عالم میں جبکہ پاکستانی عوام کو امید تھی کہ عدالت اورنگزیب فاروقی کے کیس بالخصوص دہشتگردی کے تعلق سے لگائے گئے الزامات کا جائزہ لے گی عدالت نے اسے دو افراد اور ایک لاکھ روپیے کی ضمانت پر رہا کردیا۔ کالعدم دہشتگرد تنظیم سپاہ صحابہ کے سرغنے پر پاکستانی عوام بالخصوص شیعہ مسلمانوں کے قتل عام کے الزامات ہیں۔ اس دہشتگرد کے ہاتھ پاکستانی عوام کے خون سے رنگے ہیں۔
سپاہ صحابہ کے دہشتگرد سرغنے کی گرفتاری کےبعد اس گروہ کے حامیوں نے پاکستان کے شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد میں مظاہرے کئے تا کہ اورنگزیب فاروقی کو رہا کرنے کے لئے عدالت پر دباؤ ڈال سکیں۔
دہشتگرد گروہ سپاہ صحابہ پر دوہزار دو میں پابندی لگادی گئی تھی لیکن اس گروہ نے اپنا نام اھل سنت والجماعت بدل کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
تکفیری دہشتگرد گروہ سپاہ صحابہ دہشتگردانہ کاروائیوں، سڑک کنارے بم نصب کرکے دھماکے کرنے نیز شیعہ مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہے اور لشکر جھنگوی جیسے دہشتگرد گروہوں کےساتھ مل کر اپنی مجرمانہ کاروائیاں جاری رکھتا ہے۔
دہشتگرد گروہوں کی کاروائیاں ایسے عالم میں جاری ہیں کہ حکومت کی جانب سے دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کا اعلان کیا گیاتھا جس کے بعد پاکستانی شہریوں نے امید لگارکھی تھیں کہ بغیر کسی تعصب کے تمام دہشتگردوں کا مقابلہ کیا جائے گا۔پاکستان میں محمد نواز شریف کی حکومت نے پھانسی کی سزا پر عائد پابندی ختم کرکے نیز فوجی عدالتوں میں دہشتگردوں کےخلاف مقدمے چلا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ دہشتگردوں کےساتھ سختی سے پیش آرہی ہے اور امن و سکیورٹی قائم کرنے میں سنجیدہ ہے کیونکہ دسمبر دوہزار چودہ کو پیشاور میں فوج کے ایک اسکول پر دہشتگردوں کےحملے سے فوج کی ساکھ بری طرح خراب ہوئی تھی۔
اس حملے میں ایک سو چالیس افراد جاں بحق ہوئےتھے جن میں زیادہ تر تعداد بچوں کی تھی۔
اگرچہ فوج کے سربراہ نے فوجی عدالت کے اس فیصلے پر دستخط کردئے ہیں کہ تیرہ دہشتگردوں کو پھانسی کی سزا دی جائے گی لیکن ایسا لگتا ہےکہ پاکستان میں دہشتگردوں کا جائزہ لینے میں دوہرے معیارات سے کام لیا جارہا ہے۔
پاکستان میں فوجی عدالتیں زیادہ تر پاکستانی طالبان کے دہشتگردوں اور انسداد دہشتگردی کی عدالتیں دہشتگرد گروہوں کے سرغنوں اور دہشتگرد عناصر کو سزا دے رہی ہیں۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کے پاس ٹھوس طریقے سے دہشتگردوں کےخلاف فیصلے سنانے کا اختیار نہیں ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان عدالتوں کو بعض عناصر کی جانب سے دھمکیاں ملتی ہیں یا یہ کہ بعض عناصر کے زیر اثر ہیں۔
ایسا نہیں لگتا کہ پاکستانی عوام کو یاد ہوگا کہ انسداد دہشتگردی عدالتوں نے معروف دہشتگرد گروہوں جیسے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے کسی دہشتگرد کو سزا یا پھانسی دی ہو۔
یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بھی تنقید کی ہے کیونکہ دہشتگردوں کے مقدمے اس قدر طولانی ہوجاتے ہیں کہ دہشتگردوں کو جیلوں سے بھگادیا جاتا ہے یا انہیں عدالتیں بری کردیتی ہیں یا وہ ضمانت پر آزاد ہوجاتے ہیں اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بری کردیا جاتا ہے۔
اسی بناپر پاکستان کے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف پاکستانی عدالتوں کے اس طرح کے رویے سے اس ملک میں دہشتگردی کی بیخ کنی کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔