ایران کے خلاف امریکہ کی دشمنی جاری
کی عالمی ایجنسی آئی اے ای ا ے کے ڈائرکٹر جنرل نے واشنگٹن میں ایک مشترکہ اجلاس میں پانچ جمع ایک گروپ اور ایران کے درمیان طے شدہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل درامد کا جائزہ لیا ہے۔
پانچ جمع ایک گروپ اور ایٹمی انرجی یہ نشست جمعے کے دن منعقد ہوئی۔اس میں فرانس کے صدر فرانسوا اولاند، برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیویڈ کیمرون، جرمنی کی وزیر دفاع اورسلا وینڈر لین، امریکہ میں روس کے سفیر سرگی کیسلیاک، آئی اے ای اے کے ڈائرکٹرجنرل یوکیا آمانو اور یورپی یونین کے سربراہ ڈونالڈ ٹاسک شریک تھے۔ یہ نشست واشنگٹن میں چوتھے نیوکلئر سکیورٹی اجلاس کے موقع پر صدر اوباما کی دعوت پر منعقد ہوئی۔
یوکیا آمانو نے اس نشست میں ایک بیان پڑھ کر سنایا اور کہا کہ ایران اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ منظم ایٹمی نگرانی کے تحت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور آئی اے ای اے نے اپنے باہمی معاہدوں کی اساس پر ایران کی ذمہ داریوں سے بڑھ کر شفاف سازی کے اقدامات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یوکیا آمانو نے کہا کہ نگرانی کے اقدامات جن پر اتفاق کیا گیا ہے وہ برسوں تک جاری رہیں گے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے اس نشست میں ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدے کو تاریخی معاہدہ قراردیا اور کہا کہ ان کی نظر میں یہ معاہدہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں تک پہنچنے سے روکنے کا سبب بنا ہے۔ اوبامانے دعوی کیا کہ امریکہ کی کوششیں اس جہت میں ایٹمی عدم پھیلاو اور ایٹمی ہتھیاروں سے عاری دنیا کے افق کھولنے پر متمرکز ہیں۔امریکی صدر نے اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جسے انہوں نے علاقے میں عدم استحکام لانے والی ایران کی سرگرمیوں سے تعبیر کیا کہا کہ امریکی حکومت ایران کی جانب سے بقول اس کے دہشتگردی کی حمایت، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بیلسٹیک میزائل پروگرام سے متعلق پابندیاں عائد کرے گی اور یہ امریکہ کی پالیسی کا حصہ ہے۔ اوباما کا یہ بیان واضح اور روشن طریقے سے امریکہ کی ایرانو فوبیا کی پالیسی جاری رکھنے کے اھداف و مقاصد کو ظاہر کرتا ہے۔ امریکی حکام، ایران کی ایٹمی پروگرام کی ماہیت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ایران کے خلاف ظالمانہ پابندیوں کو علاقے کو بقول اس کے پرامن بنانے اور ایران کو ایٹمی ہتھیاروں سے دور رکھنے کے لئے صحیح فیصلہ قرار دیتے ہیں جبکہ امریکہ نے اپنے اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔
رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس زمانے میں جب ایٹمی مذاکرات کے نتیجے میں جامع ایکشن پلان کا اعلان کیا گیا تھا اور جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد شروع ہوا تھا فرمایا تھا کہ ایٹمی مذاکرات میں امریکہ پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ آپ نے فرمایا تھا کہ اس بات پر نگرانی رکھنا ضروری ہے کہ مد مقابل اپنی ذمہ داریوں کو پورا کررہا ہے یا نہیں، تا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان اپنے طے شدہ راستے پر گامزن رہے۔ اس بات میں شک نہیں ہےکہ جامع ایکشن پلان بھی ہر معاہدے کی طرح مواقع اور خطروں کا حامل ہے۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد سے اقتصادی، سیاسی یہانتک کہ سیکورٹی کے میدان میں کچھ مواقع فراہم ہوئے ہیں لیکن خطرے ختم نہیں ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں امریکی حکام اور صدر اوباما کے موقف یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ کے مخاصمانہ رویے اور کارکردگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ایران کی ترقی کے عمل میں رکاوٹیں ڈالنا، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف الزامات اور جھوٹے پروپگینڈوں کا سلسلہ جاری رکھنا وہ اقدامات ہیں جوامریکہ انجام دے رہا ہے۔ امریکہ نے ایران کے میزائلی دفاعی پروگرام پر بھی تشویش ظاہر کی ہے۔ امریکہ نے دو ہفتے قبل یورپی ملکوں کے ساتھ ایک مشترکہ خط اقوام متحدہ کو دیا تھا جس میں ایران کے میزائلی پروگرام کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ امریکہ کی وزارت خزانہ نے بھی اسی بہانے سے ایران کی مزید بعض کمپنیوں پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔
امریکہ تین دہائیوں سے ایران پر الزام لگارہا ہےکہ ایران دہشتگردی کی حمایت کر رہا ہے اور انسانی حقوق پامال کررہا ہے، اسی بہانے سے امریکہ نے ایران پر دباؤ ڈالے ہیں اور پانبدیاں لگائی ہیں۔ اب بھی ان دعوؤں کو ایران کے خلاف مخاصمانہ اقدامات کی بنیاد بنا رکھا ہے۔ ایران کے خلاف امریکی حکام کے بیانات کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکام کے ایجنڈے پر ایرانو فوبیا کا مسئلہ بدستور باقی ہے اور امریکہ یہ کوشش کررہا ہے کہ ایٹمی معاہدے پرعمل درامد کے بعد بھی اپنے دوہرے معیارات پر باقی رہے