مغربی ذرائع ابلاغ پر ولادیمیرپوتن کی تنقید
روس کے صدر ولادیمیرپوتن نے جمعرات کے دن ذرائع ابلاغ کے سیمینار میں شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں روسی اقدامات کی اہمیت گھٹانے پر مبنی مغرب کی کوشش پر تنقید کی۔ ولادیمیرپوتن نے کہا کہ مغرب والے دہشت گردی کے مقابلے میں روس کے کردار کو چھپانے یا اس کو غیر اہم ظاہر کرنے کی چاہے جتنی زیادہ کوشش کرلیں ان کو اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔
ولادیمیرپوتن نے شام میں دہشت گردی کے مقابلے سے متعلق خبروں کو کوریج دینے کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ذرائع ابلاغ شام سے متعلق حقائق یا تو اپنے ناظرین، سامعین اور قارئین تک لاتے ہی نہیں ہیں یا روس کے کردار کو گھٹا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ خبر رسانی کا ایک نہایت ہی ناپسندیدہ طریقہ ہے۔ روس کی فضائیہ نے تیس ستمبر دو ہزار پندرہ سے ستّر جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے ساتھ شام میں دہشت گرد گروہوں پر بمباری کی اور ان گروہوں خصوصا داعش کو شدید نقصان پہنچایا۔ رواں سال مارچ کے وسط میں روسی صدر کے حکم پر اس ملک کے فوجیوں کی زیادہ تعداد شام سے نکل گئی۔
روس جب سے شام کی جنگ میں شامل ہوا اس نے اپنی فضائی اور میزائلی طاقت کے ذریعے شام میں موجود دہشت گرد گروہوں خصوصا تکفیری گروہوں کو کاری ضرب لگائی اور یہ چیز ترکی اور ان گروہوں کے مغربی اور عرب حامیوں کے لئے خوش آئند نہیں تھی۔ سعودی عرب اور ترکی جیسے ممالک نے ان دہشت گرد گروہوں کو اپنی لاجسٹک اور اسلحہ جاتی امداد میں تیزی پیدا کر دی اور ان گروہوں کو طیارہ شکن سسٹم سے بھی لیس کر دیا۔
امریکہ کی قیادت میں ساٹھ ممالک پر مشتمل داعش مخالف نام نہاد اتحاد کو ستمبر دو ہزار چودہ سے اب تک کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے بلکہ اس اتحاد نے عراق اور شام کی بنیادی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن روس نے فضائی حملے کر کے شامی حکومت کے مخالف دہشت گرد گروہوں کے عناصر کی ہلاکتوں، ان کے سازوسامان اور ٹھکانوں کی تباہی اور انہدام میں بہت کامیابیاں حاصل کیں۔
شام کی فوج کے ساتھ روس کے وسیع تعاون کی آخری مثال تدمر شہر کی آزادی سے عبارت ہے۔ اس کے علاوہ روس نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ وہ داعش کے علاوہ دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں کو بھی اپنے حملوں کا نشانہ بناتا ہے۔ لیکن مغرب والوں نے ماسکو پر الزام لگایا کہ وہ شام کی حکومت کے مخالف اعتدال پسندوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔
روس نے تاکید کے ساتھ کہا کہ وہ امریکہ کے اتحادیوں سمیت شامی حکومت کے سارے مخالف گروہوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے جبکہ مغرب والے ساری توجہ داعش پر حملوں پر مرکوز رکھنے پر تاکید کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روس اور مغرب کے شام میں فوجی مداخلت کے اہداف مختلف ہیں۔ روس شام اور بشار اسد کی قانونی حکومت کا تحفظ کرنا چاہتا ہے جبکہ مغرب نے واضح طور پر بشار اسد اور شام کی موجودہ حکومت کی سرنگونی کو اپنا مقصد قرار دے رکھا ہے۔ لیکن اس کے باوجود روس نے شام میں یکطرفہ اقدامات سے اجتناب کے پیش نظر بارہا داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد کے ساتھ ہم آہنگی کے سلسلے میں اپنی آمادگی کا اظہار کیا ہے تاکہ مغرب والوں کے پاس شام میں ماسکو کی کارروائیوں کی مخالفت کرنے کا کوئی بہانہ نہ رہے۔
بنابریں مغربی ذرائع ابلاغ مغربی حکومتوں کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے شام میں دہشت گردی کے مقابلے کے سلسلے میں روس کے فوجی اقدامات اور کوششوں کی اہمیت گھٹانے کی تگ و دو کر رہے ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شام میں دہشت گردی کے مقابلے کے سلسلے میں اپنی کارکردگی بیان کرنے کے لئے مغرب والوں کے پاس کچھ نہیں ہے اس لئے وہ روس کے فوجی اقدامات کی اہمیت گھٹا کر امریکہ کی قیادت والے داعش مخالف نام نہاد اتحاد کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود داعش مخالف نام نہاد بین الاقوامی اتحاد اور روس کی جانب سے کئے جانے والے حملوں کے نتائج اور تعداد پر نظر ڈالنے سے فرق واضح طور پر سامنے آجاتا ہے۔