Apr ۲۱, ۲۰۱۶ ۱۷:۴۵ Asia/Tehran
  • شام کی جنگ میں شمولیت بہت بڑی غلطی

امریکی صدر باراک اوباما نے شام کی جنگ میں شامل ہونے کو بہت بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔

باراک اوباما نے اپنے دورۂ سعودی عرب کے دوران امریکہ کے پی بی ایس ٹی وی چینل کو انٹرویو کے دوران شام میں امریکی فوجی نہ بھیجنے پر تنقید کرنے والوں کے خلاف رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے عراق اور افغانستان کی جنگوں سے عبرت حاصل کر لی ہے اور شام کی جنگ میں شامل ہونا ایک غیر دانشمندانہ اقدام ہوگا جس سے امریکہ بہت بڑی غلطی کا شکار ہو جائے گا۔ سعودی عرب شام میں مغربی ممالک کی فوجی مداخلت کا اصلی حامی ہے اور اس ملک میں باراک اوباما کے بیانات اہم شمار ہوتے ہیں۔ سعودی عرب گزشتہ تین برسوں سے مغربی ممالک کو شام کی جنگ میں شامل کرنے کی پوری کوشش کرتا چلا آ رہا ہے لیکن ابھی تک اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔

سعودی حکام کا خیال ہے کہ شام میں بنیادی تبدیلیاں اور اس ملک کے قانونی صدر کی سرنگونی مغربی ممالک کی لشکر کشی کے بغیر ممکن نہیں ہے لیکن مشرق وسطی میں ایک اور جنگ شروع کرنے کے سلسلے میں امریکہ جیسے ممالک کے رجحان کے باوجود علاقائی اور عالمی حالات اس طرح کے اقدام کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ دریں اثنا امریکی صدر کے بقول افغانستان اور عراق کی جنگیں واشنگٹن کے لئے درس عبرت تھیں تاکہ وہ مشرق وسطی میں اس طرح کی کوئی اور جنگ شروع نہ کرے۔ افغانستان اور عراق کی جنگیں اس وقت شروع ہوئیں جب امریکہ کی اقتصادی حالت زیادہ اچھی تھی اور اس کے اتحادی اسے ایک قابل احترام اور بلاشرکت غیرے بڑی طاقت سمجھتے تھے۔ اسی طرح طالبان کے بہت محدود امکانات و وسائل اور عراق کی فوجی کمزوری کے پیش نظر افغانستان اور عراق کی جنگیں امریکہ کے لئے حقیقی اور ہمہ گیر سے زیادہ فوجی مشقوں کے ساتھ زیادہ شباہت رکھتی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود ان دونوں جنگوں کی وجہ سے ٹیکس دینے والے امریکی شہریوں پر ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ اخراجات مسلط کر دیئےگئے اور جنگ عراق، ویتنام کی جنگ کے بعد امریکہ کی سب سے زیادہ خونریز جنگ کے نام سے مشہور ہوگئی۔

رواں صدی کے پہلے عشرے کے ابتدائی برسوں کے برخلاف امریکہ اب سنہ دو ہزار دس کے عشرے کے دوسرے نصف میں شدید مالی بحران کا شکار ہے حتی وہ اپنے شہریوں کے لئے رفاہی منصوبوں کو عملی جامہ بھی نہیں پہنا سکتا ہے۔ افغانستان اورعراق میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد پندرہ برسوں کی جنگوں کی وجہ سے امریکی شہری جنگ سے دور بھاگتے ہیں۔

دریں اثنا عالمی برادری نے جنگ افغانستان کے سلسلے میں امریکہ کی مکمل حمایت کی اور جنگ عراق کے سلسلے میں روس، چین، فرانس اور جرمنی جیسے ممالک کی جانب سے شدید مخالفت کے باوجود واشنگٹن بعض ممالک کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن جہاں تک شام کا تعلق ہے تو ریاض کے صرف معدودے چند اتحادی علاقائی ممالک ہی شام کی قانونی حکومت کو گرانے کے لئے اس ملک پر لشکرکشی کے خواہاں ہیں۔

سعودی عرب کے شہر ریاض میں امریکی صدر اور خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے سربراہوں کے مشترکہ اجلاس سے قبل باراک اوباما کے بیانات سے اس بات کی واضح طور پر نشاندہی ہوتی ہےکہ خطے میں ایک ایسی جنگ شروع کرنے کے سلسلے میں سعودی عرب اور اس کے علاقائی حامی تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں جس سے سب ہی نفرت کرتے ہیں یا کم از کم اس جنگ کا انتظام سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔

ٹیگس