بحرین کی حکومت کے ہاتھوں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی
بحرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے تعلق سے خصوصی اجلاس میں، جو بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں تشکیل پایا، حکومت بحرین پر ملک میں کینہ پروری اور فرقہ وارانہ اقدامات عمل میں لانے کا الزام لگایا گیا۔
اس خصوصی اجلاس کے جاری کردہ بیان میں اعلان کیا گیا کہ بحرین کی عدلیہ نے، جو اپنی کارکردگی کی بناء پر بین الاقوامی قانونی اداروں کی تنقید کا نشانہ بھی بنی ہے، شیخ محمد المنسی نامی بحرین کے ایک عالم دین پر مختلف قسم کے الزامات عائد کئے ہیں تاکہ آل خلیفہ حکومت کی مخالفت کرنے کی بناء پر ان سے انتقام لیا جا سکے۔
بحرین، ایک ایسا عرب ملک ہے جو دو ہزار گیارہ سے قبل بھی سماجی آزادی کے تعلق سے عمل میں لائے جانے والے ظاہری اقدامات کے باوجود سیاسی حلقوں میں پرتشدد ملکوں میں شامل رہا اور جہاں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی کی جاتی رہی۔ بحرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور فرقہ واریت کے مقصد سے حکومتی سطح پر پرتشدد اقدامات میں دو ہزار گیارہ کے احتجاجات کے بعد مزید تیزی آئی اور اس طرح یہ پرتشدد اقدامات وسیع پہلو اختیار کر گئے۔
بحرین کے عوام، چودہ فروری دو ہزار گیارہ سے پرامن احتجاجی مظاہرے کر کے اپنے ملک میں جمہوری حکومت کی برقراری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بحرینی عوام کے احتجاجات کے مقابلے میں آل خلیفہ حکومت کی جانب سے دو قسم کا رویہ اختیار کیا گیا۔ ایک ولیعہد کی حمایت سے سیاسی رویہ اور دوسرا وزیر اعظم کی حمایت سے اختیار کیا جانے والا سیکورٹی رویہ ہے۔ کچھ ہی عرصہ گذرنے اور بحرین میں غاصب سعودی فوجیوں کے داخل ہو جانے کے بعد بحرین کی تبدیلیوں میں سیاسی رویے پر سیکورٹی کے رویے کو کھلی برتری حاصل ہو گئی اور اس صورت میں انسانی حقوق کی کہیں کوئی رعایت نہیں کی گئی۔
بحرینی عوام کی جانب سے کئے جانے والے پرامن احتجاجات کو کچلنے کے لئے آل خلیفہ حکومت نے بے تحاشا طاقت کا استعمال کیا، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ایک اہم ترین مصداق ہے۔ بحرین کی میدانی تبدیلیوں میں آل خلیفہ حکومت نے تشدد سے کام لیا اور بحرینی عوام سے جیلیں بھری جانے لگیں۔ بحرینی عوام کے سماجی و مذہبی حقوق کی خلاف ورزی بھی بحرین میں انسانی حقوق کی ایسی خلاف ورزی ہے جو اس ملک کی آل خلیفہ حکومت کے ہاتھوں وسیع پیمانے پر انجام پائی۔
بحرینی عوام کو مذہب کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی رسومات ادا کرنے سے روک دیا گیا اور حکومت نے بحرین کے مذہبی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا جن کی وسیع پیمانے پر ایذا رسانی کی گئی اور کسی بھی طرح کی قانونی کارروائی کے بغیر انھیں سزائیں سنائی گئیں۔
شیخ عیسی قاسم، شیخ علی سلمان، شیخ محمد المنسی اور شیخ حسین نجاتی، بحرین کے ایسے نامور علماء ہیں جنھیں آل خلیفہ حکومت کے کارندوں نے بارہا گرفتار کیا اور ان کے خلاف غیر منصفانہ فیصلے کئے گئے جن میں حکومت کی مخالفت کرنے والوں کی شہریت ختم کرنا بھی شامل ہے۔
برسلز میں تشکیل پانے والے خصوصی اجلاس کے بیان میں شیخ محمد المنسی کے خلاف اختیار کئے جانے والے آل خلیفہ حکومت کے رویے پر شدید تنقید کی گئی اور اسی طرح بحرینی علماء کی اسلامی کونسل کے سربراہ مجید المشعل اور جمعیت الوفاق کے نائب سیکریٹری جنرل خلیل المرزوق نیز جمعیت الوفاق کے ایک رہنما عبدالجلیل خلیل کے طلب کئے جانے کو آل خلیفہ حکومت کی کینہ پروری اور فرقہ وارانہ اقدامات سے تعبیر کیا گیا۔ حکومت بحرین کا جواب دہ نہ ہونا اور اسی طرح اس حکومت کی جانب سے دو سو سے زائد بحرینیوں کی شہریت ختم کیا جانا، بحرین میں مذہبی و سماجی طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مصداق مزید ایسے اقدامات ہیں جو فرقہ وارانہ مقاصد کی بنیاد پرعمل میں لائے جا رہے ہیں۔