سعودی عرب میں مخالفین کو سزائے موت دینے پر آل سعود کا اصرار
سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے آل سعود حکومت کی اپیل کورٹ نے سرگرم شیعہ رہنما کی سزائے موت کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے-
سعودی عرب کے مشرقی علاقے میں واقع شہر العوامیہ کے باشندے علی یوسف علی المشیخص کو چھبیس جنوری دو ہزار چودہ میں گرفتار کیا گیا تھا اور حال ہی میں نظرثانی عدالت نے اس فعال سعودی شخصیت کی سزائے موت کے فیصلے کی توثیق کر کے وزارت داخلہ کو اس فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے۔
یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب انسانی حقوق کی تنظیموں نے ، سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اس ملک کے شہریوں کے خلاف سعودی عدالتوں کے فیصلے کے بارے میں با رہا خبردار کیا ہے۔
اس سلسلے میں ابھی کچھ دنوں پہلے برطانوی اخبار اینڈی پینڈنٹ نے قانونی اداروں کی رپورٹیں شائع کر کے سعودی عرب میں سزائے موت میں اضافے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب ، دوہزار سولہ کے آغاز سے اب تک بیاسی افراد کو سزائے موت دے چکا ہے اور بعض رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ اگرسزائے موت کے باقی فیصلوں پرعمل درآمد کیا گیا تو دوہزار سولہ کے آخر تک سزائے موت پانے والوں کی تعداد دوگنا بڑھ جائے گی-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ قانونی اداروں نے بھی سعودی عرب کے اہم اور مجاہد عالم دین آیت اللہ نمر باقر النمر کے بھائی علی النمر اور داؤود المرہون نیز عبداللہ الظاہر کہ جو نام نہاد ارتکاب جرم کے وقت میں نوجوان تھے کے خلاف سزائے موت کے فیصلے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان افراد پر الزام ہے کہ انھوں نے اصلاح پسندی کے حق میں آل سعود حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شرکت کی ہے اور انھیں پیشگی انتباہ کے بغیر کسی بھی وقت سزائے موت دیئے جانے کا امکان ہے-
قابل ذکر ہے کہ آل سعود نے دوجنوری دوہزار سولہ میں اس ملک کے مجاہد عالم دین آیت اللہ نمر باقر النمر کو دیگر چھیالیس افراد کے ساتھ سزائے موت دے دی - آیت اللہ نمر کی سزائے موت پوری دنیا کے حریت پسندوں میں غم و غصے کا باعث بنی-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ قانونی حلقوں نے بھی آیت اللہ نمر باقر النمر کی ظالمانہ اور ناحق سزائے موت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ یہ عظیم عالم دین بے بنیاد وجوہات اور سعودی عرب میں طرز حکمرانی پر تنقید کے باعث جیل میں ڈالے گئے تھے اور انھیں ناحق سزا سنائی گئی اور سزائے موت دی گئی جبکہ قانون کے مطابق کسی بھی ملک میں کسی بھی شخص کا تنقید کرنے کے باعث سر نہیں قلم کیا جاتا-
اعداد و شمار سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ حالیہ برسوں میں سعودی عرب میں سزائے موت اور گرفتاریوں میں اضافہ ہوا ہے- آل سعود حکومت کے اقدامات کہ جو سرکوبی اور ظلم و استبداد میں کسی بھی حد و حدود کی قائل نہیں ہے ، عملی طور پر سعودی عرب کو بین الاقوامی سطح پر شہری حقوق کی خلاف ورزی کے ایک مرکز میں تبدیل کر دیا ہے-
اس تناظر میں سعودی حکام ، سزائے موت اور پھانسی کو مخالفین کی زبان بند کرنے کے وسیلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور خوف و وحشت کے ذریعے گھٹن کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کوئی بھی شخص آل سعود کے خلاف کھل کر بات کرنے کی ہمت نہ کرسکے-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی عرب کا قرون وسطی اور دور حجر جیسا نظام حکومت ، سیاسی شخصیتوں کو بڑے پیمانے پر سزائے موت ، بدترین سرکوبی اور کم سے کم آزادی کا فقدان ، اس ملک کے عوام اور رائے عامہ کے احتجاج پر منتج ہوا ہے-
سعودی عرب میں آل سعود کی کارکردگی کا نتیجہ ، اس ملک میں انتخابات ، مختلف سیاسی جماعتوں کی موجودگی اور پریس کی آزادی جیسی جمہوریت کی علامتوں کے فقدان اور اس ملک کے عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرکز میں تبدیل ہونے کی شکل میں نکلا ہے-
ایسی حکومت کے برے اور خطرناک نتائج صرف اندرون ملک تک محدود نہیں رہے ہیں بلکہ اس طرح کی پرتشدد اور قدامت پسند حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں جنم لینے والے سلفی و تکفیری گروہوں کے مذموم اقدامات سے پوری دنیا کو نقصان پہنچا ہے اور داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہ بھی اسی سلفی و تکفیری انتہاپسند اور انحرافی طرزفکر کی شاخ شمار ہوتے ہیں-
آل سعود کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالنے سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کے عوام اور دنیا، کبھی بھی اس کے مذموم اقدامات، تشدد ، سازشوں اور فتنوں سے محفوظ نہیں رہا۔