آل سعود کو درپیش اقتصادی اور سیکورٹی چیلنج
یمن میں فوجی موجودگی کے باعث سعودی عرب کو درپیش ریکارڈ بجٹ خسارہ اور علاقے کے ممالک کے امور میں ریاض کی مداخلت نے اس ملک کے لئے مشکل و دشوار حالات پیدا کر دیئے ہیں-
سعودی عرب میں دسیوں ارب ڈالر کے ریکارڈ بجٹ خسارے کے سلسلے میں اس ملک کے سرمایہ کاری فنڈ کی رپورٹ منظرعام پر آنے اور عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے آل سعود حکومت کو درپیش ایک سو چالیس ارب ڈالر کے ریکارڈ بجٹ خسارے کے اعلان کے کچھ ہی دنوں بعد سعودی ذرائع نے اعتراف کیا ہے کہ مالی مسائل کے حل کے لئے نئے طریقہ کار پیش کرنا ضروری ہوگیا ہے-
سعودی عرب کے سرمایہ کاری فنڈ نے اعلان کیا ہے کہ اعلی حکام کی ہدایات اور فرمان کے مطابق اقتصادی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ ادارہ بینکینگ اور اقتصادیات کے امور میں سینیئر اور تجربہ کار عالمی ماہرین کی خدمات حاصل کرے گا اور سعودی عرب کو موجودہ نامناسب اقتصادی حالات سے نکالنے کے لئے نئے طریقہ کار پیش کرے گا-
سعودی عرب کے بادشاہ کے بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان کہ جو ولیعھد کے جانشین ہونے کے ساتھ ہی وزیردفاع بھی ہیں کے بقول، سعودی عرب ، فوجی اور سیکورٹی مسائل میں اضافے کے باعث مالی مسائل سے دوچار ہوگیا ہے کہ جنھیں حل کرنے کے لئے کچھ منصوبے ان کے ایجنڈے میں شامل ہیں اور ان منصوبوں میں ایک بڑی آئیل کمپنی آرامکو کا کچھ حصہ فروخت کرنا بھی شامل ہے-
اس سے دو دن پہلے مالی امور میں سعودی عرب کے ولیعھد کے مشیر محمد آل شیخ نے کہا تھا کہ اگر یہ ملک مستقبل قریب میں مالی مسائل کے حل کے لئے کوئی چارہ کار تلاش نہیں کرے گا تو دوہزارسترہ سے پہلے پوری طرح دیوالیہ ہو جائے گا-
سعودی ذرائع کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے جنگی اخراجات بالخصوص یمن پر گذشتہ برس سے حملوں کے باعث مالی مسائل سنگین ہو جانے سے آج بروز پیر کو، ولی عھد کے جانشین اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ایک بیان میں اس ملک کے اصلاحاتی پروگراموں کا اعلان کریں گے-
اقتصادی اور سیکورٹی مسائل کے حل کے لئے سعودی عرب کے اصلاحاتی پروگرام ایسے عالم میں سامنے آ رہے ہیں کہ اس ملک کے بادشاہ نے سنیچر کو اپنے ایک فرمان میں ملک کے وزیر پانی و بجلی عبداللہ بن عبدالرحمان الحصین کو ان کے عہدے سے معزول کر کے اس وزارت خانے کا قلمدان، وزیر زراعت عبدالرحمان الفضلی کو سونپ دیا تھا-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے اب تک ڈیڑھ سال کے عرصے میں بہت سے عہدوں میں تبدیلیاں کی ہیں اور لوگوں کو معزول و منصوب کیا ہے- عالمی ترقیاتی ادارے اور عالمی مالیاتی فنڈ جیسے بین الاقوامی اور مغربی ذرائع کا تاکید کے ساتھ یہ کہنا ہے کہ سعودی عرب نے تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود اس ملک کے شہریوں کو معیاری زندگی گذارنے کے اسباب فراہم نہیں کئے ہیں یہاں تک کہ اس ملک کے تقریبا سترفیصد عوام نامناسب معاشی صورت حال سے دوچار ہیں-
ان حالات میں علاقے اور سعودی عرب میں انسانی حقوق کی فعال شخصیتوں کا خیال ہے کہ علاقے کے امور میں ریاض کی سیاسی و فوجی مداخلتوں نے اس ملک کی اقتصادی صورت حال کو تشویشناک حالات سے دوچار کر دیا ہے اور اسی وجہ سے سعودی عرب کے عوام ، گذشتہ برسوں میں متعدد مظاہرے کر کے اپنے ملک میں سیاسی، اقتصادی اور بنیادی اصلاحات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن سعودی حکام معزولی اور گمراہ کن منصوبے پیش کر کے ان احتجاجات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں-