کانگریس پارٹی پر ہندوستان کی برسراقتدار جماعت کا الزام
اٹلی کی سپریم کورٹ کی جانب سے ہندوستان کی سابق حکومت کے بعض حکام پر اٹلی کی ایک کمپنی کے عہدیداروں سے رشوت لینے کے الزام کی توثیق کے بعد ہندوستان کی پارلمینٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے ممبران نے اس مالی بدعنوانی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے-
اٹلی کی سپریم کورٹ نے اعلان کیا ہے کہ دوہزار دس میں پانچ سو ساٹھ ملین یورو مالیت کے بارہ ہیلی کاپٹروں کی خریداری کے معاہدے میں ہندوستانی حکام کو پچپن ملین یورو رشوت دی گئی تھی-
اس فیصلے کی توثیق کے بعد ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے ممبران نے اس مالی بدعنوانی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے-
درایں اثنا ہندوستان کی برسراقتدار جماعت بی جے پی کے صدر نے بھی پارلمینٹ کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنماؤں سے اس مالی بدعنوانی کا جواب دینے کا مطالبہ کیا ہے-
بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے اعلان کیا ہے کہ کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی کو سابق حکومت کی مالی بدعنوانی کے سلسلے میں عوام کے سامنے وضاحت پیش کرنا چاہئے کہ یہ رشوت کسے دی گئی ہے-
دوہزار چودہ میں اٹلی کی کمپنی سے ہیلی کاپٹروں کی خریداری کے معاہدے میں بعض ابہامات اور شکوک و شبہات کے باعث ہندوستان کی اس وقت کی حکومت نے معاہدے کو منسوخ اور اس سلسلے میں تحقیقات شروع کر دی تھی- اس بنا پر کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے رشوت لینے کے الزام کو بے بنیاد اور جھوٹ بتاتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی کی حکومت اس سلسلے میں انجام پانے والی تحقیقات کو جلد سے جلد ختم کرے تاکہ حقائق سامنے آسکیں-
اس معاہدے کے مطابق فروری دوہزار تیرہ تک اٹلی کی جانب سے تین ہیلی کاپٹر ہندوستان کی تحویل میں دیئے گئے ہیں لیکن ان ہیلی کاپٹروں سے استفادہ نہیں کیا گیا ہے- کانگریس پارٹی کے حکام نے اعلان کیا ہے کہ ان ہیلی کاپٹروں کو خریدنے کے لئے دیے جانے والے بیعانے کی رقم واپس لے لی گئی ہے-
برسراقتدار جماعت بی جے پی اور اپوزیشن جماعت کانگریس ، مختلف زمانوں میں ایک دوسرے پر مالی بدعنوانی کا الزام لگاتی رہی ہیں-
اور اس وقت اٹلی کی سپریم کورٹ کی جانب سے، ہیلی کاپٹروں کے سودے میں ہندوستان کی سابق حکومت کے حکام کو رشوت دیئے جانے کے فیصلے نے ایک بار پھر ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کو کانگریس پارٹی پر مالی بدعنوانی کا الزام لگانے کا موقع فراہم کر دیا ہے-
سیاسی ماہرین کی نگاہ میں یہ پہلی بار نہیں ہے کہ بی جے پی کے رہنما کانگریس پارٹی کے حکام پر مالی بدعنوانی کا الزام لگا رہے ہیں بلکہ سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کے زمانے میں بھی ان پر کوئلے کی بعض کانوں کی الاٹ مینٹ میں مالی بدعنوانی کا الزام لگا تھا-
کانگریس پارٹی کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ مختلف میدانوں خاص طور پر سماجی فلاحی امور انجام دینے ، بے روزگاری کی شرح میں کمی لانے اور اقتصادی ترقی بحال کرنے جیسے سماجی اور اقتصادی ترقی کے وعدوں پر عمل درآمد میں بی جے پی کی ناکامی کے باعث حکمراں پارٹی کے رہنما ، اپنے حریفوں پر الزام لگانے کے لئے ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں- البتہ اپوزیشن جماعت کانگریس بھی بارہا وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت پر زرعی زمینوں کو کنٹرول میں لے کر غیر ملکی سرمایہ داروں کے اشتراک سے ان پر صنعتی مراکز اور یونٹیں قائم کرنے کے خلاف مظاہرے کرتی رہی ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان اقتصادی پالیسیوں پر عمل درآمد اور بدعنوانی کا مسئلہ ہمیشہ موجود رہا ہے- برسراقتدار جماعت بی جے پی کی ترجیحی پالیسیوں میں ہندوستان کو صنعتی ملک بنانا اور بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنا ہے اور اسی لئے وہ زرعی زمینوں کو صنعتی یونٹوں میں تبدیل کرنا چاہتی ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ کانگریس پارٹی، عام طور پر زیادہ توجہ زرعی شعبے پر دیتی ہے -
بہرحال، ہندوستان کی کانگریس پارٹی کی صدر کی نگاہ میں سابق کانگریس حکومت کے حکام پر مالی بدعنوانی کے معاملے کی تحقیقات میں پس و پیش اور ٹال و مٹول اور ملک میں مالی بدعنوانی کا ثابت ہونا قابل غور ہے-