May ۰۱, ۲۰۱۶ ۱۸:۲۷ Asia/Tehran
  • امریکہ کی ایران مخالف پالیسی

مشترکہ جامع ایکشن پلان پرعملدرآمد شروع ہونے کے تین ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد امریکہ کی ایران مخالف سیاسی پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔

ایرانوفوبیا ایک ایسی پالیسی ہے جس پر امریکی حکام اب تک عمل پیرا ہیں۔ امریکہ یہ اقدامات کام کی تقسیم کی بنیاد پر انجام دیتا ہے ان میں سے بعض اقدامات امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ادارہ انجام دیتا ہے اور بعض اقدامات امریکی کانگریس کے ذریعے انجام دیئے جاتے ہیں۔ اس سلسلے کا تازہ ترین اقدام ریاست ورجینیا سے تعلق رکھنے والے ری پبلیکن پارٹی کے رکن رینڈی فوربس (Randy Forbes) کی جانب سے کانگریس کو پیش کیا جانے والا مسودہ قرارداد ہے۔ اس مسودہ قرارداد کے منظور ہونے کی صورت میں خلیج فارس میں ایرانی فوجیوں کی موجودگی کو کشیدگی پھیلنے والا عمل سمجھا جائے گا۔

کانگریس کے خبر رسانی کے مرکز کی رپورٹ کے مطابق اس مسودہ قرارداد میں " بین الاقوامی سمندری قوانین کی پابندی نہ کرنے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بے اعتنائی کرنے " کی بنا پر ایران پر تنقید کی گئی ہے۔

ایران کے خلاف الزام لگائے جانے کے اس ماحول میں یہ دعوی کیا گیا ہےکہ خطے کے سمندروں میں ایران اس انداز میں فوجی مشقیں انجام دیتا ہے کہ جن سے کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ مشقیں استحکام کو نقصان پہنچانے، ان چاہی کشیدگیوں میں شدت اور امریکی سرحدوں سے باہر امریکہ کی مسلح افواج کے لئے خطرات میں اضافے کا موجب ہیں۔

دسمبر دو ہزار پندرہ میں ٹرومین طیارہ بردار بحری جہازوں سے ایک ہزار پانچ سو گز کے فاصلے پر ایرانی بحری جہازوں کی مشقیں، جنوری سنہ دو ہزار سولہ میں اس بحری جہاز کے اوپر ایران کے فوجی جہاز کی پرواز اور غیر قانونی طور پر ایران کی آبی حدود میں داخل ہونے والی دو امریکی کشتیوں کے عملےکی گرفتاری کو رینڈی فوربس نے خلیج فارس کے پانیوں میں ایران کی موجودگی کو خطرہ قرار دیا ہے۔

اس مسودہ قرارداد میں امریکی حکومت سے کہا گیا ہےکہ بقول ان کے ایران کے خطرناک رویوں کا پوری قوت کے ساتھ جواب دیا جائے۔

خطے میں امریکی اسٹریٹیجی پالیسی میں ان اقدامات کا مقصد ایرانوفوبیا کے سلسلے کو جاری رکھنا اورعرب ممالک کےہاتھ اپنے ہتھیار فروخت کرنا ہے حالانکہ خطے میں امریکہ کی فوجی موجودگی کشیدگی کا عامل اور اجتماعی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ امریکی حکام انسانی حقوق سے متعلق بے بنیاد رپورٹیں جاری کر کے بھی اسی ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ دہشت گردی کے حوالے سے بھی اسی رویئے کو اپناتے ہوئے غیر قانونی اقدامات کا ارتکاب اور ایران کے اثاثوں کی لوٹ مار کرتے ہیں۔ امریکہ نے انسانی حقوق کی بہت زیادہ خلاف ورزی کی ہے اور اس نے دہشت گردوں کی حمایت کے ذریعے متعدد مظالم و جرائم کا ارتکاب کیا ہے جس کی وجہ سے وہ انسانی حقوق کے دشمن میں تبدیل ہوچکاہے اور اسے انسانی حقوق کی بات تک کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

امریکہ نے خطے میں ہمیشہ بچوں کی قاتل صیہونی حکومت کے اقدامات کی حمایت کی اور وہ اس ظالم اور دہشت گرد حکومت کو اپنا اسٹریٹیجی پارٹنر سمجھتا ہے۔ ایسی صورتحال میں امریکی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ امریکی عدالتیں نام نہاد دہشت گردانہ جرائم میں مارے جانے والوں کے لواحقین کی جانب سے درج کرائے جانے والے مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے ایران کے منجمد اثاثوں میں سے تاوان کی رقم لے سکتی ہے۔ یہ کیس سنہ انیس سو تراسی میں بیروت میں امریکی فوجیوں کے مرکز میں بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ نے دائر کیا ہے۔

امریکی حکومت نے اس اقدام کے ذریعے واضح طور پر ایران کے اثاثوں کی چوری کا ارتکاب کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ کے نائب سربراہ اردشیر لاریجانی نے اس بارے میں کہا ہے کہ امریکہ کے اس اقدام سے حاصل کیا جانے والا سب سے اہم درس یہ ہے کہ امریکی حکام پر ہرگز اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اراکین نے بھی ایرانی اثاثوں کے خلاف امریکی عدالتوں کے فیصلوں کو بے بنیاد، غیرمنطقی اور بین الاقوامی قوانین اور نظم و نسق کے منافی قرار دیا ہے اور کہاہے کہ پارلیمنٹ اس مسئلے کا جائزہ لے گی۔

امریکہ کے ان اقدامات کا بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے پوری سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیا جانا چاہئے کیونکہ امریکہ نے ممالک کو حاصل تحفظ کے قانون کے آگے سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور اقوام متحدہ کو اس سلسلے میں اپنا فرض منصبی ادا کرنا چاہئے۔

ٹیگس