امریکہ دہشت گردی پھیلنے کا ذمےدار
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے ایک تقریر میں کہا کہ مشرق وسطی میں جاری بدامنی سوویت یونین کے اطراف میں بحران پیدا کرنے کے مقصد سے چند عشرے قبل امریکہ کی جانب سے انجام دیئے جانے والے اقدامات کا نتیجہ ہے۔
حامد کرزئی نے رشیا ٹوڈے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی بقول ان کے افغانستان کے دیہاتوں میں دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں حالانکہ انتہا پسندی اس ملک کے دوسرے حصے میں پائی جاتی ہے۔
حامد کرزئی نے مزید کہا کہ ان کا خیال ہےکہ روس کے طاقتور ہونےاور خطے میں اس کے اثر و رسوخ میں اضافے کے انتہا پسندی کے مقابلے اور افغانستان کی سلامتی پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
حامد کرزئی نے مزید کہا کہ طالبان اور القاعدہ کے دہشت گردوں کے تربیتی مراکز پاکستان میں ہیں۔ لیکن امریکہ نے کبھی بھی ان کے ٹھکانوں کو اس ملک میں نشانہ نہیں بنایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر امریکہ انتہا پسندی کا قلع قمع کرنا چاہتا ہے تو اس کے پاس روس، چین اور ہندوستان کے ساتھ تعاون کرنےکے علاوہ کوئی اورچارہ نہیں ہے۔
حامد کرزئی کا مزید کہنا تھا کہ اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئےکہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی پندرہ برسوں پر محیط فوجی کارروائیاں طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہےکہ مذاکرات کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہےکہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے امریکہ کے ساتھ سیکورٹی معاہدے پر دستخط نہ کرکے واشنگٹن کی پالیسیوں کے بارے میں اپنی مخالفت کا اظہار کیا تھا اور انہوں نے ہمیشہ امریکہ کو افغانستان اور خطے کی سیکورٹی مشکلات کا ذمےدار قرار دیا ہے۔ وہ اپنے عہد صدارت میں افغانستان میں سرگرم امریکی نجی سیکورٹی کمپنیوں خصوصا بلیک واٹر نیز امریکی فوجیوں کی رات کےوقت کی کارروائیوں کو افغانستان میں بحران کے اسباب جانتے تھے اور انہوں نے امریکی فوجیوں کے ساتھ معاہدہ کر کے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان میں رات کے وقت اپنی فوجی کارروائیاں بند کریں۔
حامد کرزئی دہشت گرد گروہوں کے وجود میں آنے اور ان کے پھیلنے کو سرد جنگ کا نتیجہ جانتے ہیں اور ان دہشت گرد گروہوں کو امریکہ وجود میں لایا ہے۔ حامد کرزئی کا خیال ہے کہ اس عرصےکے دوران واشنگٹن نے کمیونزم اور سوویت یونین کی سرخ فوج کے مقابلے کے لئے افغانستان میں براہ راست یا بالواسطہ طور پرمتعدد دہشت گرد گروہ تشکیل دیئے۔ اب یہ گروہ دوسرے ناموں سے اور زیادہ وحشیانہ انداز میں اپنی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں اور امریکہ ان گروہوں کے ٹھکانوں اور ان کی سرگرمیوں کے مقامات پر کوئی توجہ نہیں دیتا ہے۔
افغانستان کے سابق صدر کے زاویہ نگاہ کے مطابق واشنگٹن اس ملک کو اپنی فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرنے کے درپے ہے یہی وجہ ہےکہ وہ انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس اقدام انجام نہیں دیتا ہے اور وہ افغانستان میں دہشت گردی اور تشدد کے مقابلے کے لئے دوسرے ملکوں کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار نہیں ہے۔
حامد کرزئی کے نزدیک دہشت گردی کی جڑ دوسری جگہ ہے اور امریکہ نہ صرف اس کا قلع قمع نہیں کرتا ہے بلکہ ان گروہوں کےساتھ سازباز اور تعاون بھی کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی پھیلتی جا رہی ہے۔ حامد کرزئی کے نزدیک افغانستان میں دہشت گرد گروہ داعش کو بھی درآمد کیا گیا ہے۔ حامدکرزئی نے دعوی کیا کہ افغانستان میں ظلم کرنے والے پاکستان سے آئے ہیں۔
بہرحال افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی دہشت گردی کے مقابلے اور افغانستان میں قیام امن کے لئے علاقائی تعاون کو ضروری اور موثر جانتے ہیں ۔ اسی لئے انہوں نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے مقابلے کے لئے خطے کے ممالک کے ساتھ تعاون کرے اور ان ملکوں کی حمایت سے اجتناب کرے جو خطے میں تشدد کے پھیلنے کا موجب ہیں اور دہشت گردوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔