ایران کے تیل کی پیداوار اور برآمدات میں اضافے پر تاکید
اسلامی جمہوریہ ایران مشترکہ جامع ایکشن پلان پرعملدرآمد شروع ہونے کے بعد اپنی تیل کی پیداوار اور برآمدات کو دوگنا کرنا چاہتا ہے۔
ایران کے وزیر پٹرولیم بیژن نامدار زنگنہ نے اتوار کے دن ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم موجودہ صورتحال میں روزانہ ایک ملین بیرل تیل کی پیداوار کو دگنا کر کے اسے دو ملین بیرل روزانہ کی سطح پر پہنچانے کے لئے کوشاں ہیں۔
ایران کے وزیر پیٹرولیم نے تیل سے متعلق سعودی عرب کی پالیسیوں اور ایران کے تیل کی پیداوار پر پڑنے والے اس کے اثرات کی جانب بھی اشارہ کیا۔ انہوں نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ اس وقت سعودی عرب کے ساتھ ہماری تیل کی خاموش جنگ جاری ہے کہا کہ سعودی عرب کے حکام نے تیل کی قیمت اور اس کی فروخت کے لئے مارکیٹنگ کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف بعض اقدامات انجام دیئےہیں۔
ایران پابندیوں سے قبل تقریبا چارملین بیرل تیل نکالتا تھا اور اس زمانے میں سعودی عرب بھی تقریبا نو ملین بیرل تیل نکالتا تھا لیکن آج وہ دس ملین بیرل تیل نکال رہا ہے۔
سعودی عرب نے حال ہی میں جنوری سنہ دو ہزارسولہ کی سطح پرتیل کی پیداوار برقرار رکھنے کی ایک تجویز پیش کی ہے اور اس سلسلے میں قطر کےشہر دوحہ میں ایک اجلاس بھی بلایا۔
تیل سے متعلق سعودی عرب کی سیاست بازی کی وجہ سے دوحہ اجلاس اپنے اصلی راستے سے ہٹ گیا کیونکہ اس تجویز کا اصل مقصد ایران پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ جنوری دو ہزار سولہ کی مقدار کے مطابق تقریبا ایک ملین بیرل تیل کی پیداوار کو ہی برقرار رکھے حالانکہ تیل کی پیداوار کی اس مقدار کا تعلق ایران پرعائد کی جانے والی ظالمانہ پابندیوں کے دور سے ہے کہ جب ایران کی تیل کی پیداوار کم کر دی گئی تھی۔ اب جبکہ یہ پابندیاں ختم ہو چکی ہیں تو اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ ایران اوپیک میں اپنے حصے کے مطابق سابقہ مقدار میں تیل نہ نکالے۔
لیکن سعودی عرب کو اوپیک میں جو حصہ حاصل ہے وہ اس سے پندرہ لاکھ بیرل زیادہ تیل نکال کر اسے سستی قیمت پر تیل کی منڈی میں فروخت کے لئے پیش کرے۔ سعودی عرب کی یہ پالیسی ایران کےخلاف تیل کی جنگ کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے وزیر پیٹرولیم نےاس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس تجویز کو قبول کرنے کے معنی اپنے آپ پر خود ہی پابندیاں عائد کرنے کے ہیں اور ہم کسی بھی صورت میں اسے قبول نہیں کریں گے اور ہم یقینی طور پر اپنے تیل کی پیداوارچارملین بیرل تک پہنچا سکتے ہیں۔
سعودی عرب کے برسہا برس تک وزیر پیٹرولیم کے عہدے پر فائز رہنے والےعلی النعیمی کی برطرفی کے بعد اب یہ سوال اٹھا ہے کہ کیا تیل پیدا کرنےوالے سب سے بڑےملک کے طور پر سعودی عرب کی تیل سے متعلق پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے۔ سعودی عرب نے تقریبا گزشتہ دو برس سے اوپیک میں غیر تعمیری مقابلے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور اس نے ضرورت سے زائد تیل کی پیداوار اور اسے تیل کی منڈیوں میں بھیج کر تیل کی عالمی قیمت پر شدید ضرب لگائی ہے۔ سعودی عرب نے درحقیقت فی بیرل ایک سو ڈالر کی قیمت نیچے گرا دی ہے۔ تیل کی آمدنی پر سعودی عرب کے شدید انحصار کے باعث اس ملک کو تقریبا ایک سو ارب ڈالر بجٹ کے خسارے کا سامنا ہے۔
ایس سی آئی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے مبصر گائو جیان نے کہا ہے کہ ایران خصوصا ایشیا کی منڈی میں سعودی عرب کے لئے خطرہ ہے۔ گائو جیان کا مزید کہنا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے تیل کی پیداوار کا کم کیا جانا بعید لگتا ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے اس تباہ کن مقابلے کے باعث گزشتہ دو برسوں کے دوران عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سعودی عرب کی اس پالیسی سے ان مشکلات کی نشاندہی ہوتی ہے جن کا علی النعیمی کو اپنے عہدے کے آخری برسوں کے دوران سامنا کرنا پڑا ہے۔ النعیمی ہفتے کے دن اپنے عہدے سے برطرف کر دیئے گئے اور سعودی عرب کی تیل کی سرکاری کمپنی یعنی آرامکو کمپنی کے سربراہ خالد الفالح نے ان کی جگہ لے لی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ خالد الفالح بھی النعیمی کی پالیسیوں کو ہی جاری رکھیں گے چاہے اس اقدام کے معنی منڈیوں میں پہلے سے زیادہ تیل پیش کرنے کے ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن گزشتہ دو برس کے تجربے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ تیل کی قیمت کی جنگ میں ہار سعودی عرب کا ہی مقدر بنے گی۔