بوکو حرام کے سرغنوں کی خود سپردگی
نائیجیریا کے فوجی ذرائع نے دہشت گرد گروہ بوکوحرام کے بعض سرغنوں کے ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو فوج کے حوالے کرنے کی خبر دی ہے۔ ہمیڈو بوبا ، موسی بوبا اور علی ادریسا بوکو حرام کے تین ایسے سرغنے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کوفوج کے حوالےکر دیا ہے۔
نائیجیریا کی فوج نے حالیہ ہفتوں کے دوران نائیجیریا کے شمال مشرق میں واقع صوبہ بورنو اور سامبیسا جنگل کے اطراف میں اپنے حملوں میں شدت پیدا کی ہے۔
فوج کے کمانڈروں کا خیال تھا کہ بوکوحرام گروہ کا اصلی سرغنہ ابوبکر شیکائو اور اس دہشت گرد گروہ کے دوسرے سرغنے سامبیسا کے جنگلی علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں۔
نائجیریا کے فوجی کمانڈر، بوکوحرام کے خلاف علاقائی اتحاد کی فوجی کارروائیوں کی کمان بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ وہ جداگانہ طور پر اپنے ملک کے شمال مشرقی صوبوں میں بھی اس گروہ کے عناصر کے ساتھ جنگ میں مصروف ہیں۔
نائیجیریا کے صدر محمدو بوہاری نے سنہ دو ہزار چودہ میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنےکے بعد دہشت گرد گروہ بوکوحرام کو کچلنے کو اپنی حکومت کی اولین ترجیح قرار دیا تھا۔
انہوں نے مارچ کے مہینے میں امریکہ کا دورہ کیا اور واشنگٹن کی حکومت سے اپیل کی کہ وہ بوکوحرام کی نابودی کے لئے نائیجیریا کے ساتھ تعاون کرے۔ نائیجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں فرانسیسی وزیر دفاع کے ساتھ محمدو بوہاری کے درمیان طے پانے والے سیکورٹی معاہدے اور اطلاعات کے تبادلے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ نائجیریا کے صدر نے بوکو حرام کو شکست دینے کے لئے امریکہ اور فرانس کا دامن تھاما ہے۔ امریکی لڑاکا طیاروں کی نائیجیریا کی فوج کے ہاتھ فروخت کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہئے۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن کے حکام نائیجیریا کے ہاتھ بارہ عدد جیٹ طیارے فروخت کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ان طیاروں کو بوکو حرام کے مقابلے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ امریکی حکومت اسی کے ساتھ ساتھ نائیجیریا کے ہاتھ بعض فوجی سازوسامان خصوصا جاسوسی کا سازوسامان فروخت کرنے اور اپنے فوجیوں کے ذریعے نائیجیریا کے فوجیوں کو تربیت دینے کا جائزہ لے رہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہےکہ واشنگٹن کا یہ اقدام محمدو بوہاری کی پالیسیوں پر امریکہ کے اعتماد کے مترادف ہے اور اس کا مقصد نائیجیریا کی فوج میں اصلاحات اور بوکوحرام کا مقابلہ کرنا ہے۔
نائیجیریا کے موجودہ صدر نے ایسی حالت میں مدد مانگنے کے لئے امریکہ کی جانب ہاتھ بڑھایا ہے کہ جب اس ملک کے سابق صدر گوڈلک جاناتھن نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بہانے نائیجیریا کو ہتھیار فروخت کرنے پر مبنی امریکی پالیسی کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ نائیجیریا کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی چاہے مسلح انتہاپسند گروہ بوکو حرام کی نابودی کے مقصد سے ہی کیوں نہ ہو اسے نائیجیریا کی سیاست اور اقتدار میں امریکی حکام کی دراندازی کا ایک راستہ ہی سمجھا جائے گا۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب واشنگٹن کا اصل مقصد نائیجیریا کے قیمتی تیل کے مالا مال ذخائر سے امریکہ کے غیر قانونی مفادات کا تحفظ ہے اور یہ تیل شمالی برینٹ کی قسم میں سے شمار ہوتا ہے۔
دریں اثناء نائیجیریا کی فوج کی جانب سے اس ملک کے شمالی علاقے خصوصا شہر زاریا میں آباد مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا تشدد آمیز رویہ قابل مذمت ہے۔ نائیجیریا کی اسلامی تحریک کے قائد آیت اللہ شیخ زکزکی کو جواس وقت اپنے گھر میں نظر بند ہیں گزشتہ دسمبر کے مہینے میں فوجیوں نے حملہ کر کے زخمی کیا اور پھر گرفتار کر لیا تھا۔
بوکو حرام کے خلاف فوج کے اقدامات کو پورے ملک میں قیام امن کے سلسلے میں عزم راسخ کی علامت قرار دیا جاسکتا ہے بشرطیکہ فوج دوسرے مقامات پر قومی اور مذہبی گروہوں کو کچلنے کی آلہ کار نہ بنے۔