شام کے بحران کےسیاسی حل پر تاکید
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ شام کے بارے میں بلائے جانے والے بین الاقوامی اجلاس میں شرکت کی غرض سے پیر کی شام ویانا پہنچے۔
ویانا کا اجلاس آج منگل کے دن ایسے حالات میں بلایا گیا ہے کہ جب شام میں ان علاقوں میں جھڑپیں جاری ہیں جو دہشت گردوں کے حملوں کی زد پر ہیں۔ مبصرین کے نزدیک یہ اجلاس جنگ بندی پر مکمل عملدرآمد کی ضرورت پر ایک با رپھر پر تاکید اور سیاسی مذاکرات کا راستہ ہموار ہونے کا ایک موقع ہے۔ واضح رہے کہ شام میں جنگ بندی کی بارہا خلاف ورزی کی جا چکی ہے۔ محمد جواد ظریف نے ویانا پہنچتے ہی شام میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کے ساتھ ملاقات اور مذاکرات کئے ہیں۔ محمد جواد ظریف نے دہشت گرد گروہوں کی جانب سے شام، خطےاور عالمی برداری کولاحق خطرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جانا ضروری ہے۔
محمد جواد ظریف نے یہ بات بھی صراحت کے ساتھ کہی کہ شام کا بحران دہشت گردوں اور ان کے علاقائی اور بین الاقوامی حامیوں کی کوششوں کے باوجود فوجی طریقےسے حل نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے ابتداء سے ہی اس بحران کو سیاسی بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر تاکید کی ہے۔
ویانا اجلاس ایسی حالت میں بلایا جا رہاہےکہ جب ماسکو اور واشنگٹن نے اس بات کا عہدکیا ہےکہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اپنی کوشش دگنی کر دیں گے۔
لیکن سوال یہ ہےکہ شام کے بحران کے حل کے مقصد سے ویانا میں بلائے جانے والے اجلاس کے نتیجہ خیز ہونے کی کس حد تک امید رکھی جاسکتی ہے۔
یہ بات مسلّم ہے کہ شام کے بحران کو ہوا دینے میں متعدد عوامل نے کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہےکہ ویانا اجلاس میں شریک فریقوں کے درمیان شدید اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور ابھی تک شام کے بحران کے حل کے سلسلے میں افہام و تفہیم نیز مذاکرات پر مبنی کوئی جامع اور حتمی حل دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل شام کے بارے میں اب تک متعدد قراردادیں منظور کر چکی ہے لیکن یہ قراردادیں شام کے بحران کے حل کے سلسلے میں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری چالیس سے زیادہ مرتبہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ شام میں جنگ بندی کے بارے میں سمجھوتہ کر چکے ہیں لیکن کبھی بھی جنگ بندی پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے اور شام میں قتل عام اور تباہی و بربادی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
شام میں مداخلت کرنے والی طاقتوں کے درمیان مقابلہ اور ترکی اور سعودی عرب جیسے علاقائی ممالک کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کی جانب سے وحشیانہ قتل عام بھی جاری ہے جبکہ شام میں انسان دوستانہ امداد بھیجے جانےکی کوششیں کافی وقفے کے بعد کی جاتی ہیں۔ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہےکہ شام کی حکومت کے مخالفین کو شام کے بحران کے حل سے متعلق موجودہ تجاویز قبول کر لینی چاہئیں کیونکہ وقت ان کے حق میں نہیں ہے۔
شام میں بحران شروع ہوئے پانچ سال ہو رہے ہیں۔ اس عرصےکے دوران شام کی قوم نے دہشت گردوں کے مقابلے میں بہت قربانیاں دی ہیں اور کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اگر یہ استقامت نہ ہوتی تو شاید آج دمشق داعش کے گڑھ میں تبدیل ہو چکا ہوتا۔ البتہ دہشت گرد گروہوں اور ان کے حامیوں پر جو ضربیں لگائی گئی ہیں وہ کافی نہیں ہیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گرد گروہوں کی مالی اور اسلحہ جاتی امداد کی جائے، جھڑپوں کا خاتمہ کیا جائے اور شامی قوم کی مرضی کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ شام کا بحران طویل ہونے کی صورت میں شام کی قوم اور خطے کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اگر شامی فریقوں کے مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہوگئے تو شام میں سیاسی اور فوجی صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی جانب ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ویانا پہنچتے ہی بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ شام کا بحران دہشت گردوں اور ان کے علاقائی اور بین الاقوامی حامیوں کی کوششوں کے باوجود فوجی طریقےسے حل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس بات کی بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے کہ دہشت گرد گروہ جنگ بندی سے فائدہ اٹھا کر شام کے عوام کے خلاف اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں تیز کر دیں۔