اوباما کا روس پر ایٹمی ہتھیاروں میں کمی لانے کے لئے تیار نہ ہونے کا الزام
امریکی صدر باراک اوباما نے اتوار کو دعوی کیا ہے کہ روس اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں کمی لانے کے لئے مزید مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہے
امریکی صدر نے تاکید کے ساتھ کہا کہ میں نے روسیوں سے مذاکرات کرنے کی کوشش کی ہے اور جب سے میں اقتدار میں آیا ہوں اسی وقت سے روس اور امریکہ کے ایٹمی ہتیھاروں کے ذخائر میں کمی لانے سے متعلق معاہدے اسٹارٹ ٹو پر عمل درآمد کی کوشش کرتا رہا ہوں- انھوں نے کہا کہ روس نے مزید اقدامات کے لئے ابھی تک اپنا رجحان ظاہر نہیں کیا ہے- امریکی صدر نے مزید کہا کہ البتہ دنیا میں ایٹمی ترک اسلحہ کے سلسلے میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے کیونکہ دنیا کی بڑی ایٹمی طاقتوں نے اپنے سابقہ ہتھیاروں میں اضافہ نہیں کیا ہے- امریکہ اور روس دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے سب سے بڑے گوداموں کے حامل ممالک ہیں اور اس حیثیت سے وہ ایک لمبے عرصے سے اپنی ایٹمی صلاحیتوں کو قانونی شکل دینے سے متعلق معاہدے کرتے رہے ہیں- اسٹارٹ ٹو معاہدے کے مطابق کہ جس پر دوہزار دس میں ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان دستخط ہوئے ، دونوں ممالک کو اپنے ایٹمی وار ہیڈ کی تعداد پندرہ سو پچاس تک کم کرنا تھی یعنی دونوں ملکوں کو صرف پندرہ سو ایٹمی وار ہیڈ رکھنے کی اجازت تھی اور ان وار ہیڈ کے لانچروں کی تعداد بھی سات سو تک محدود کرنا تھی - روس کا اپنے ایٹمی گوداموں میں موجود ہتھیاروں کو کم کرنے پر تیار نہ ہونے کے بارے میں ماسکو کے خلاف اوباما کے دعوے ایسے عالم میں سامنے آئے ہیں کہ امریکہ ، خود ایک بڑی ایٹمی طاقت کی حیثیت سے اپنے ایٹمی گوداموں کو زیادہ سے زیادہ توسیع دینے اور اس کی تعمیر نو کے لئے ایک بڑے پروگرام پر عمل پیرا ہے-
روسیوں کے بقول ، ایٹمی گوداموں کو کم کرنے کے لئے بین الاقوامی اقدامات خاص طور پر این پی ٹی معاہدے کے باوجود کہ جو ایٹمی ہتھیاروں کو کم کرنے اور آخرکار انھیں تباہ کرنے کے لئے طے پایا اور پھر اس پر عمل درآمد بھی شروع ہوا ، امریکہ بدستور اپنے ایٹمی گوداموں کو باقی رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے- واشنگٹن کا یہ اقدام رقیب یا امریکہ کے دشمن ممالک خاص طور پر روس اور چین میں ایٹمی ہتھیاروں کی جدید کاری اور تعمیرنو کے عمل کے بہانے انجام پا رہا ہے کہ جس کے لئے ماسکو و بیجنگ خاص طور سے روس نے اپنی اسٹریٹیجک ایٹمی طاقت کی تعمیر نو کے لئے بھاری بجٹ مختص کر رکھا ہے-
اس سلسلے میں روس کا ارادہ ہے کہ سن دوہزار بیس تک اپنے ستر فیصد سے زیادہ اسٹریٹیجک ایٹمی گوداموں کی تعمیر نو کر دے- روس کے مقابلے میں امریکہ نے اپنے ایٹمی پروگرام کی تعمیر نو کے لئے بہت وسیع پروگرام تیار کر رکھا ہے- امریکہ کے آڈٹ آفس نے اگست دوہزار پندرہ میں اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا کہ ملک کے ایٹمی گوداموں کی جدیدکاری کے لئے امریکی حکومت کے پچیس سالہ منصوبے پر دوسوترانوے ارب ڈالر سے زیادہ کا خرچ آئے گا- امریکہ کے نائب وزیر دفاع باب ورک نے بھی جون دوہزار پندرہ میں تاکید کے ساتھ کہا تھا کہ اس ملک کو اپنی ڈٹرینٹ ایٹمی طاقت کی تعمیرنو کے لئے دوہزار پینتیس تک دوسو ستر ارب ڈالر سے زیادہ کے فائیننس کی ضرورت ہے- امریکہ کے نائب وزیر دفاع نے تاکید کے ساتھ کہا تھا کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے لئے ایک مضبوط ڈٹرینٹ ایٹمی طاقت کا ہونا ہمیشہ اہم اور ضروری ہوگا اور یہ امریکی وزارت دفاع کی سب سے اہم ترجیح ہے- مجموعی طور پر یہ کہنا چاہئے کہ ایٹمی گوداموں میں کمی کے لئے بین الاقوامی اقدامات خاص طور پر این پی ٹی معاہدے کے باوجود بڑی ایٹمی طاقتیں اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی جدید کاری اور انھیں ماڈرن بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں - اس سلسلے میں تمام پانچ ممالک یعنی امریکہ ، روس ، چین ، فرانس اور برطانیہ کہ جنھیں ایٹمی طاقت تسلیم کیا گیا ہے، جدید ایٹمی لانچر بنانے ، ہتھیار بنانے اور انھیں نصب کرنے میں مشغول ہیں یا یہ اقدامات انجام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں- درحقیقت ان پانچوں ممالک میں کوئی ایک بھی ملک اپنے ایٹمی گوداموں کو کم کرنے یا ایٹمی ہتھیاروں کو تباہ کرنے کے لئے واضح نظام الاوقات معین کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے- اس طرح امریکہ کے ایٹمی حریف یعنی روس کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں میں کمی لانے کے لئے تیار نہ ہونے کے بارے میں اوباما کا دعوی ، ماسکو کو ذمہ دار ٹھہرانے کی صرف ایک ناکام کوشش ہے جبکہ وہ واشنگٹن کے ایٹمی پروگرام کی توسیع کے بارے میں کچھ کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں-