دہشت گردوں کی حمایت، شام میں جرائم اور مظالم میں اضافے کا سبب
شام میں پیر کے روز دہشت گردانہ دھماکوں کے بعد شامی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے حامی ممالک دہشت گردانہ اقدامات کی حمایت جاری رکھ کر شام میں جرائم جاری رہنے کا سبب بنے ہیں۔
شام کی وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے صدر کے نام الگ الگ خطوط میں شام کے مغرب میں پیر کے روز دہشت گردوں کے ظلم اور دہشت گردی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ جس میں کم از کم ایک سو پچاس شامی شہری جاں بحق ہو گئے تھے، اس بات پر زور دیا کہ سعودی عرب، قطر اور ترکی جیسے دہشت گردوں کے حامی ممالک کی جانب سے انسدادی اقدامات سے روکنا اور خاموشی کی پالیسی، دہشت گردوں کے لیے ہری جھنڈی ہے کہ جو شامی عوام کے خلاف جرائم جاری رہنے کا باعث بنی ہے۔
شام کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شام میں دہشت گردوں کے حامی دہشت گردی کو سیاسی بلیک میلنگ اور دباؤ کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ اس چیز نے علاقے اور دنیا کے امن اور سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
شام کے مغرب میں جبلہ اور طرطوس شہروں میں پیر کے روز سات دہشت گردانہ حملے کیے گئے کہ جن میں میڈیا رپورٹوں کے مطابق ڈیڑھ سو کے قریب افراد جاں بحق ہو گئے اور داعش نے بھی ان دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور بہت سے ملکوں نے ان دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ان اندوہ ناک واقعات کو شام میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کی انسانیت مخالف اور وحشیانہ ماہیت کا ایک اور ثبوت قرار دیا۔
شام میں پیر کے روز داعش کے دہشت گردانہ حملے کہ جو گزشتہ پانچ سال کے دوران بدترین دہشت گردانہ قرار دیے گئے ہیں، ایک ایسے وقت میں انجام دیے گئے ہیں کہ جب شام کے نمائندے اور داعش اور جبہۃ النصرہ کے علاوہ مسلح مخالفین علاقے میں پائیدار جنگ بندی کے لیے صلاح و مشورہ اور بات چیت کر رہے ہیں۔
اگرچہ شام میں جنگ بندی تین ماہ قبل روس اور امریکہ کے اتفاق رائے سے شروع ہوئی کہ جسے ایک سو چالیس گروہوں نے قبول کیا ہے اور اس کے نتیجے میں اس ملک میں سیکورٹی کی صورت حال نسبتا بہتر ہوئی ہے لیکن تکفیری دہشت گرد گروہوں داعش اور جبہۃ النصرہ نے کہ جو اس جنگ بندی معاہدے میں شامل نہیں تھے، اس عرصے کے دوران دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ کر کے سینکڑوں شامی شہریوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا۔
اسی بنا پر شامی حکام کا یہ خیال ہے کہ داعش اور جبہۃ النصرہ کے دہشت گرد کہ جنھیں سعودی عرب اور ترکی کی حمایت حاصل ہے، اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کر کے بحران شام کے پرامن حل کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو ناکامی سے دوچار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب سعودی اور امریکی حکام نے حالیہ ہفتوں کے دوران کئی بار شام میں امن مذاکرات کے عمل پر تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ اگر ان کے نظریات نے عملی شکل اختیار نہ کی تو دمشق حکومت کے خلاف جنگ اور دباؤ میں اضافہ ناگزیر ہو گا۔
درحقیقت دہشت گرد اور ان کے حامی شام کی حکومت اور عوام کے خلاف گزشتہ پانچ برسوں کی سازشوں کی ناکامی کے بعد شہری علاقوں میں جرائم کا ارتکاب کر کے اور سیاسی دباؤ ڈال کر شام کی تبدیلیوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتے ہیں، لیکن شام کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کی فوج اور حکومت کی داخلی حمایت کی وجہ سے شام کی حکومت کو گرانے کے پروگرام پر عمل درآمد آسانی سے ممکن نہیں ہے اور دہشت گردوں کے حامیوں کے پاس شامی فریقوں کے مذاکرات کی بحالی کے لیے بین الاقوامی راہ حل کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔