امریکہ کے تعلمیی نظام میں نسلی امتیاز واپس لانے کی کوشش
امریکہ میں ایک عدالت نے اجازت دی ہے کہ ریاست مسی سیپی کے ایک علاقے میں اسکولوں کو نسلوں کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔
ریاست مسی سیپی کی فیڈرل عدالت کے حکم کے مطابق اس علاقے میں مڈل اور ہائی اسکولوں کو نسل کے لحاظ سے الگ الگ کر دیا جائے گا۔ یہ فیصلہ امریکہ کی فیڈرل سپریم کورٹ کے فیصلے سے کھلا تضاد رکھتا ہے کہ جس نے Brown v. Board of Education کیس میں نسل کی بنیاد پر اسکولوں کی علیحدگی کو آئین کے منافی قرار دیا تھا۔
انیس سو چون میں امریکہ میں نسلی امتیاز کے ایک واضح مصداق کے خلاف برسوں کی جدوجہد اور کوشش کے بعد اس ملک کی سپریم کورٹ نے ایک تاریخی حکم میں اسکولوں میں نسلی امتیاز کے خاتمے کا حکم جاری کیا۔ اس حکم کے مطابق پورے امریکہ میں کسی بھی اسکول کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ طلبہ کو نسلی بنیاد پر ایک دوسرے سے الگ کرے۔ اس سے قبل امریکہ کے بہت سے اسکولوں خاص طور پر جنوبی ریاستوں میں اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی تھی کہ سیاہ فام بچے سفید فام بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کریں۔
یہ ایسے وقت میں تھا کہ جب برسوں پہلے اور امریکہ میں خانہ جنگی کے بعد غلامی منسوخ کر دی گئی تھی اور بظاہر اس ملک میں نسلی برابری پرعمل کیا جاتا تھا۔ ان برسوں میں بہت سے شعبوں میں نسلی امتیاز ختم کر دیا گیا تھا لیکن تعلیمی نظام ان تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت کر رہا تھا۔ یہ مزاحمت آخرکار انیس سو چون میں فیڈرل سپریم کورٹ کے فیصلے اور اسی طرح انیس سو ستاون میں لٹل راک شہر کے سینٹرل ہائی اسکول کے واقعہ کے بعد ختم ہو گئی۔ اس زمانے میں ایسا لگتا تھا کہ نسلی بنیاد پر اسکولوں کے قیام کا مسئلہ اب تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ لیکن اس تبدیلی کو ساٹھ سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد اب ایسی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ قانونی طور پر سیاہ فام اور سفیدفام الگ الگ اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب چند سال پہلے سے امریکہ میں نسلی امتیاز کا مسئلہ ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ مثال کے طور پر بڑے شہروں کے وسطی اور گنجان آبادی اور جرائم والے علاقے سیاہ فاموں سے تعلق رکھتے ہیں اور متمول سفید فام طبقہ شہروں کے نواحی پوش علاقوں میں مقیم ہے۔ شہری سہولیات جن میں اسکول، لائبریریاں اور طبی مراکز وغیرہ شامل ہیں، اسی تقسیم کی بنیاد پر فراہم کی گئی ہیں۔ اسی بنا پر امریکہ میں بہت سے اسکول ایسے ہیں کہ جن میں سو فیصد سیاہ فام یا سفید فام بچے پڑھتے ہیں۔
حال ہی میں امریکی اسکولوں میں نسلی تقسیم کے بارے میں تحقیقات انجام دی گئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں ایک ہی نسل سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ انیس سو اٹھاسی میں امریکہ میں اس قسم کے اسکولوں کی تعداد دو ہزار سات سو باسٹھ تھی جو اب بڑھ کر چھے ہزار سات سو ستائیس ہو گئی ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اگر ایک نسل کے طلبہ کے اسکولوں کے قیام کے لیے ریاست مسی سیپی کی فیڈرل عدالت کے حالیہ فیصلے کی امریکہ کی دیگر ریاستوں نے بھی حمایت کر دی تو پھر پورے امریکہ میں اس قسم کے اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔ چونکہ تعلیم ہر معاشرے کی سماجی تبدیلیوں کی بنیاد سمجھی جاتی ہے، اس لیے نسلی امتیاز کے ماحول میں بچوں کی تعلیم، امریکہ میں سماجی عدم مساوات اور نسلی امتیاز میں پہلے سے زیادہ اضافہ کر دے گی۔