اسرائیل کی انتہا پسندی میں شدت
صیہونی حکومت نے اپنے اشتعال انگیز اور جنگ پسندانہ اقدامات میں شدت پیدا کر دی ہے۔ صیہونی وزیر جنگ اویگڈور لیبرمین اپنے عہدے کا چارج سنبھالنےکے پہلے ہی دن کل مسجد الاقصی میں داخل ہوئے اور صیہونی پولیس کی حفاظتی تدابیر کے ساتھ دیوار ندبہ کے پاس تلمودی رسومات انجام دیں۔
فلسطین کے انفارمیشن سینٹر کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی انتہا پسند خاخام یہودا گلیک نے تمام صیہونیوں سے وعدہ کیا ہےکہ وہ بہت جلد مسجد الاقصی کے خلاف ان کے اجتماعی اقدامات کا راستہ ہموار کریں گے۔ صیہونی پارلیمنٹ نے پیر کے دن لیبرمین کو موشے یعلون کی جگہ اس حکومت کا نیا وزیر جنگ مقرر کیا ۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب صیہونی پارلیمنٹ کے مالی کمیشن نے اس حکومت کے سیکورٹی اور دفاعی بجٹ کے لئے تیرہ اعشاریہ دو ارب شیکل مطابق تین اعشاریہ چار ارب ڈالر مختص کئے ہیں اور طے شدہ پروگرام کے مطابق ان میں سے کچھ رقم امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ملنے والی سالانہ مالی امداد اور اسرائیل کے بجٹ سے حاصل کی جائے گی۔
اسرائیلی وزیر جنگ کے طور پر لیبر مین کی تقرری کی وجہ سے سیاسی حلقوں خصوصا مخالف جماعتوں میں تشویش دوڑ گئی ہے کیونکہ بہت سے افراد کا خیال ہےکہ اس سے نیتن یاہو کی کابینہ میں انتہاپسندی میں مزید شدت پیدا ہوسکتی ہے۔
صیہونی حکومت کے حالات سے بھی اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ حکومت انتہا پسندانہ، اشتعال انگیز اور جنگ پسندانہ اقدامات کی جانب بڑھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سےاس حکومت کی جنگ پسندانہ ماہیت ایک بار پھر واضح طور پر رائے عامہ کےسامنے آئی ہے۔ صیہونزم، نسل پرستی اور انتہاپسندی کی بنیاد پر ہی استوار ہے اور اس حکومت کے اقدامات نسل پرستی اور انتہا پسندی پر ہی مبنی ہوتے ہیں۔ صیہونی حکومت نے ایسی حالت میں اشتعال انگیزی اور جنگ پسندانہ اقدامات میں شدت پیدا کی ہے کہ جب اس حکومت کے حامی نام نہاد فلسطینی انتظامیہ سے مراعات حاصل کرنے کے لئے سازباز مذاکرات کے نئے دور کا راستہ ہموار کرنے کے درپے ہیں اوراسی تناظر میں عنقریب فرانس کی جانب سے پیش کردہ تجویز کی بنیاد پر ایک کانفرنس بلائی جانے والی ہے اور صیہونی حکومت کے اس اقدام کے ساتھ اس کی امن دشمن ماہیت ماضی سے زیادہ نمایاں ہوگئی ہے۔
صیہونی حکومت نے ایسی حالت میں جنگ پسندانہ اقدامات میں شدت پیداکی ہےکہ جب گزشتہ اکتوبر کے مہینے سے وہ اپنے تشدد کے نئے مرحلے کے ساتھ فلسطینی علاقوں خصوصا بیت المقدس میں اپنی تسلط پسندی کے خلاف اعتراض کرنے والے سیکڑوں فلسطینیوں کو خاک وخون میں غلطاں کر چکی ہے۔
گزشتہ اکتوبر سے فلسطینی عوام نے انتفاضہ قدس کے نام سے اپنے قیام کا نیا مرحلہ شروع کیا ہے جس کی وجہ سے صیہونی حکومت شدید تشویش میں مبتلا ہوچکی ہے۔ اس انتفاضہ کے باعث مختلف میدانوں میں صیہونی حکومت کو مشکلات کا سامنا اور وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔
ان حالات میں صیہونی حکومت تشدد اور اشتعال انگیز اقدامات میں اضافے کے ساتھ فلسطینی علاقوں میں اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے درپے ہے۔ لیکن فلسطینی علاقوں خصوصا بیت المقدس میں صیہونی حکومت کے تسلط پسندانہ اور اشتعال انگیز اقدامات اور مقدس مقامات خصوصا بیت المقدس کی بے حرمتی کا نتیجہ صرف فلسطینیوں کے اعتراضات میں شدت پیدا ہونے کی صورت میں ہی برآمد ہوا ہے۔ اور فلسطینیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے عقائد کی توہین برداشت نہیں کریں گے۔ اس کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہےکہ سنہ دو ہزار میں اس وقت کے صیہونی وزیراعظم ایریل شیرون اشتعال انگیز قدم اٹھاتے ہوئے مسجد الاقصی میں داخل ہوگیا تھا فلسطینی عوام نے اس اقدام کے خلاف شدید احتجاج کیا اور انتفاضہ الاقصی کا آغاز ہوگیا۔
اسی حقیقت کے پیش نظر یہ اعتراف کیا جاسکتا ہےکہ مسجد الاقصی میں لیبر مین کے اشتعال انگیز داخلے سے بھی سنہ دو ہزار پندرہ سے صیہونی حکومت کی تسلط پسندی کے رد عمل میں شروع ہونے والے انتفاضہ قدس میں بھی شدت پیدا ہوگی۔