خلیج فارس تعاون کونسل اقتصادی مشکلات کا شکار
تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی اور خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں کے فوجی اخراجات میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والے بجٹ خسارے نے اس کونسل کے رکن ملکوں کے لیے بہت زیادہ اقتصادی اور معاشی مشکلات اور مسائل پیدا کر دیے ہیں۔
خلیج فارس تعاون کونسل نے بدھ کے روز جدہ میں ہونے والے اپنے اجلاس کے اختتام پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے چھے رکن ممالک سعودی عرب، کویت، قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات اور عمان نے کہ جنھیں تیل کی قمیت میں کمی کی وجہ سے بجٹ خسارے کا سامنا ہے، اپنے ارکان کے درمیان اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے ایک نیا ادارہ قائم کیا ہے۔
خلیج فارس تعاون کونسل کے بیان میں کہا کیا ہے کہ یہ کونسل ترقی و اقتصادی امور کا ادارہ قائم کر کے اقتصادی شعبوں میں رکن ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد و یکجہتی قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی اور خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے فوجی اخراجات میں اضافے کے نتیجے میں اقتصادی مشکلات اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ کونسل ایسے حالات میں کوششیں کر رہی ہے کہ جب انیس سو اکاسی میں اس کی تشکیل کے وقت سے لے کر اب تک اپنے داخلی اختلافات اور دوسرے ارکان کے لیے سعودی عرب کے بعض یکطرفہ فیصلوں کی وجہ سے یہ کونسل اقتصادی شعبے میں کوئی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی ہے۔
اگرچہ گزشتہ دو سال کے دوران تیل کی قیمت میں کمی سے خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک، خاص طور پر تیل کی سبسڈی کو کم کرنے اور بالواسطہ ٹیکس لگانے کے لیے بعض اقدامات کرنے پر مجبور ہوئے لیکن اس عرصے کے دوران ان ملکوں کے ایک سو پچاس ارب ڈالر کے فوجی اخراجات کی وجہ سے، اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کے لیے اس کونسل کے رکن ممالک کے اقدامات کامیاب نہیں ہو سکے۔
اسٹاک ہوم میں قائم امن کے بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک نے اس کے باوجود کہ گزشتہ دو سال کے دوران انھیں عالمی سطح پر تیل کی قیمت میں کمی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اسی عرصے کے دوران انھوں نے مغربی ملکوں سے ایک سو ارب ڈالر سے زائد مالیت کے ہتھیار خریدے اور اس طرح وہ دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والے ممالک بن گئے۔
درحقیقت عسکریت پسندانہ پالیسی اور یمن، شام حتی عراق جیسے، خطے کے ملکوں کے امور میں مداخلت پر خلیج فارس تعاون کونسل کے اصرار کے پیش نظر یہ توقع نہیں ہے کہ ترقی و اقتصادی امور کے ادارے کی تشکیل، سبسڈی میں کمی اور ٹیکسوں میں اضافے کے بارے میں خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے محدود اقدامات، ان ملکوں کو درپیش اقتصادی مشکلات کو حل کر سکیں گے۔
یہ ایسے حالات میں ہے کہ جب عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی ترقیاتی ادارے جیسے بین الاقوامی اداروں نے خلیج فارس کے عرب ممالک کی مالی صورت حال کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان ملکوں میں مالی ذرائع کے غلط استعمال اور اپنے شہریوں کی زندگی کے لیے ضروری معیارات سے بےتوجہی برتنے کا عمل جاری رہنے کی صورت میں ان ملکوں کی حاکمیت کو پہلے سے زیادہ خطرات لاحق ہو جائیں گے۔